وفاقی حکومت نے ’تنطیم الاسلام‘ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر
پاکستان میں وفاقی حکومت نے جمیعت علمائے اسلام کی ذیلی تنظیم ’انصار الاسلام‘ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ کو سمری ارسال کی ہے جس میں جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب وزارت داخلہ کی دستاویزات کے مطابق جے یو آئی ایف نے آزادی مارچ کے لیے انصار السلام کے نام سے مسلح فورس کو 27 اکتوبر سے شروع ہونے والے آزادی مارچ کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔
سمری کے مطابق نجی مسلح فورس لاٹھیوں اور خاردار تاروں میں لپٹے ڈنڈوں سے لیس ہے اور بظاہر اس کا مقصد حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ دنوں ڈنڈا بردار فورس کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو گارڈ آف آنر پیش کیا جا رہا تھا اور ریہرسل پریڈ بھی کی جا رہی تھی۔
اس کے علاوہ جے یو آئی ایف کے ورکرز نے اٹک پل کراس کرتے ہوئے کشتیوں کے ذریعے اسلام آباد تک پہنچنے کی بھی تیاریاں کر رکھی ہیں۔
وفاقی حکومت نے اس پریڈ کے بعد سکیوٹی صورتحال کے پیش نظر جے یو آئی ایف کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق جے یو آئی کے زیر انتظام کام کرنے والا یہ گروپ ملک بھر میں 80 ہزار افراد پر مشتمل ہیں اور اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ گروپ اسلحے سے بھی لیس ہے جس کی وجہ سے نہ صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بلکہ چاروں صوبوں میں بھی امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
دوسری طرف وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے سنیچر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جہاں انتشار پھیلانے کے حوالے سے کوئی جتھا کام کر رہا ہے وہاں صوبائی حکومتوں نے بھی اپنا لائحہ عمل بنا لیا ہے۔ ’حکومت کسی بھی نجی فورس کے ہاتھوں شہریوں کو یرغمال نہیں بننے دی گی۔‘
یاد رہے کہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے 27 اکتوبر کو حکومت مخالف آزادی مارچ اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
وزارت داخلہ کی سمری کے مطابق مذکورہ فورس پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی ہے جو کہ کسی بھی نجی مسلح فورس کی تیاری سے روکتا ہے اور ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے پیش نظر بنائے گئے قومی ایکشن پلان کے مطابق بھی کسی قسم کے مسلح گروہ کو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 146 کے تحت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر انصار الاسلام پر پابندی عائد کرنے اور دیگر کارروائیوں کا اختیار رکھتی ہے۔
اس سے قبل جمعے کو اسلام آباد کے تھانہ آپبارہ کے ایس ایچ او نے ایک سرکلر جاری کیا تھا جس میں تمام ہوٹل مالکان، کیٹرنگ، ورکشاپس اور ساونڈ سسٹم مالکان کو دھرنے کے شرکا کو کسی قسم کی سہولت دینے سے باز رہنے کی ہدایت کی ہے اور کہا گیا ہے کہ دھرنے کے دوران جنریٹر، کھانا، ساونڈ سسٹم یا دیگر سہولیات مہیا کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے جائے گی۔
واضح رہے کہ جے یو آئی کے ’آزادی مارچ‘ کو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھی مارچ میں شرکت کا باضابطہ اعلان کر رکھا ہے۔
حکومت کی جانب سے حزب اختلاف کی جماعت سے مذاکرات کے لیے وفاقی وزیر برائے دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی قائم کی ہے۔
کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر پرویز خٹک نے سنیچر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں سے درخواست کی کہ مل بیٹھ کر مذاکرات کریں۔ ’اگر کوئی ہمارے ساتھ بیٹھنے کو کوئی تیار نہیں تو ہم نے تو اپنا فرض پورا کر لیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت وہ فیصلہ کرے گی جس سے ڈیڈلاک پیدا نہ ہو۔ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں اس کے باوجود اگر افراتفری ہوئی تو آئین اور قانون کے مطابق نمٹا جائے گا اور اس کی ذمہ داری اپوزیشن پر ہوگی۔