بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے خانوزئی سے تعلق رکھنے والی فرزانہ بی بی ایک سال کی عمر میں پولیو وائرس کا شکار ہوئیں جس کے باعث ان کی دائیں ٹانگ مفلوج ہوگئی۔ اسی معذوری کے سبب انہیں اپنا سکول چھوڑنا پڑا۔ بچپن میں کھیلنے کودنے سے محرومی سے لے کر آج بتیس سال کی عمر تک زندگی کے ہر موڑ پر انہیں چیلنجز کا سامنا ہے مگر فرزانہ نہ صرف خود عزم و حوصلے سے ان مشکلات کا مقابلہ کررہی ہیں بلکہ دوسروں کے بچوں کو بھی اس وائرس سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
فرزانہ نے تمام مشکلات اور خطرات کے باوجود بلوچستان کے ان علاقوں میں انسداد پولیو مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جہاں ملک بھر میں بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ وہ انسداد پولیو پروگرام میں شامل ہونے کے بعد سے اب تک گھر گھر جاکر سینکڑوں ایسے والدین کو قائل کرچکی ہیں جو پہلے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلانے سے انکاری تھے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے فرزانہ نے بتایا کہ جب ان کا آخری بار آپریشن ہوا اور وہ ناکام ہوا، تو انہوں نے تہیہ کیا کہ وہ دوسرے کے بچوں کو عمر بھر کے لیے معذور کردینے والے اس مرض سے بچائیں گی۔
’ڈاکٹر نے بتایا کہ پولیو کا کوئی علاج نہیں۔ تب میں نے سوچا کہ اس بیماری نے میری زندگی تو خراب کردی مگر میں دوسروں کو تو اس بیماری سے بچا سکتی ہوں۔‘
فرزانہ نے بتایا کہ تین سال قبل جب انہیں موقع ملا تو انہوں نے اپنے آبائی علاقے خانوزئی مرغہ ذکریا زئی سے انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا۔
’میں نے محنت اور جذبے کے ساتھ کام شروع کر دیا۔ بہت سے ایسے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو انسداد پولیو ویکسین نہیں پلاتے۔ میں خود جاکر ان سے ملتی ہوں، انہیں اپنی کہانی سنا کر ان کی غلط فہمیاں دور کرتی ہوں۔ انہیں اپنی مشکلات بیان کرتی ہوں کہ اس بیماری کی وجہ سے مجھے کتنی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ انہیں بتاتی ہوں کہ یہ صرف ایک معمولی بیماری نہیں بلکہ لا علاج مرض ہے۔ اس میں مبتلا ہونے کے بعد آپ کا بچہ زندگی بھر مشکلات و مصائب کا سامنا کرتا رہے گا۔ میری کہانی سن کر لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر راضی ہوجاتے ہیں۔
’جب میں چھوٹی تھی تو معذوری کی وجہ سے میری تعلیم متاثر ہوئی۔ میں نہ باقی بچوں کے ساتھ کھیل سکتی تھی اور نہ ہی باقاعدگی کے ساتھ سکول جاسکتی تھیں کیونکہ سکول کافی دور تھا اور آمد و رفت کی کوئی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنا پڑتا تھا۔
’میں زیادہ دیر تک پیدل نہیں چل سکتی تھی اس لیے جلد ہی سکول چھوڑ دیا۔ آگے مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا اور مجھے محسوس ہوا کہ میں باقیوں سے مختلف ہوں۔ والد ایک سکول ٹیچر تھے، انہوں نے میرے علاج کے لیے بہت بھاگ دوڑ کی۔‘
فرازانہ کے مطابق والدین، بھائیوں اور بہنوں نے انہیں ہر ممکن حد تک سپورٹ کیا اور کبھی معذور ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔
’میں نے گھر میں بیٹھ کر ہی اپنی تعلیم جاری رکھی۔ بہن بھائی کو سکول میں جو پڑھایا جاتا ان سے پڑھتی اور انہیں نوٹ بک میں جو کام ملتا تھا میں بھی وہ کرلیتی۔ اسی طریقے سے تیاری کرکے پرائیوٹ امتحان دیے۔ اس طرح میں نے ایم اے تک پڑھا اور 2012ء میں اردو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔‘
دو سال قبل جب فرزانہ خانوزئی سے کوئٹہ منتقل ہوئیں تو انہوں نے کوئٹہ کے علاقے نواں کلی زرغون آباد میں انسداد پولیومہم میں بطور ایریا سپر وائزر کام شروع کیا۔
’ابتدا میں میرے ساتھی مجھے خاتون اور پھر معذور ہونے کی وجہ سے ایک عام انسان نہیں سمجھتے تھے۔ میرے ساتھیوں اور کمیونٹی کے لوگوں کا خیال تھا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتی۔
’ہمارے پشتون معاشرے میں خاتون کا گھر سے نکلنا ہی بہت مشکل ہوتا ہے پھر معذور ہونا اور انسداد پولیو جیسے مشکل کام میں حصہ لینا آسان نہیں۔ یہاں پولیو ورکرز کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، انہیں قتل بھی کیا گیا۔ اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں پولیو سے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور شدید مخالفت کرتے ہیں۔‘
فرازانہ نے تمام تر مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔
’جب بھی مجھے باتیں سننے کو ملتیں تومیری حوصلہ شکنی کے بجائے میری ہمت مزید بڑھتی اور مجھ میں مزید لڑنے کی طاقت آجاتی۔ میں یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ چاہے انسان معذور ہی کیوں نہ ہو وہ اپنے آپ کو منوا سکتا ہے۔ میری تو صرف ایک ٹانگ معذور ہے مگر دوسری ٹانگ اور دو ہاتھ تو سلامت ہیں۔ الگ الگ سوچ رکھنے والے لوگوں کے معاشرے میں لوگوں کی باتیں تو ہوتی ہیں، کوئی حوصلہ افزائی کرتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ معذور ہوتے ہوئے گھر والے ان سے کام کرا رہے ہیں۔ مگر کام کرنے کی لگن اور مسلسل محنت کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کے رویے میں بھی تبدیلی آئی۔
فرزانہ کے کام کا آغاز بنیادی مرکز صحت جانے سے ہوتا ہے جہاں دیگر ٹیم ممبران کے ساتھ میٹنگ ہوتی ہے، جس کے بعد ان کی ٹیمیں ویکسین لے کر علاقائی اسٹیشن اور پھر فیلڈ میں جاتی ہیں۔
’میں گھر گھر جا کر پولیو کی مہم کی خود نگرانی کرتی ہوں کہ کوئی بچہ پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پینے سے رہ تو نہیں گیا۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی بھی بچہ قطرے پینے سے محروم نہ رہے تاکہ وہ اس مرض سے بچ سکے۔ ایسے بھی والدین ملتے ہیں جو ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں وہ اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلانا چاہتے۔‘
فرزانہ کو پیدل چلنے میں دقت ہوتی ہے اور کثیر المنزلہ عمارتوں کی سیڑھیوں پر چڑھنا ان کی تکلیف میں اضافہ کر دیتا ہے۔
’پھر بھی میں ہمت سے کام لیتی ہوں اور آج تک ایسا نہیں ہوا کہ میں نیچے کھڑی ہوکر کسی کو بلاﺅں۔ جیسا بھی ممکن ہو میں خود اوپر چل کر لوگوں کے پاس جاتی ہوں کیونکہ میں یہ کام جہاد سمجھ کر کر رہی ہوں ۔‘