مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم کو استعفے کے لیے دو دن کی مہلت دی تھی۔ فوٹو: روئٹرز
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ان کے ساتھ ہیں اور وہ اگلے اقدامات کا فیصلہ ان کے ساتھ باہمی مشاورت کے بعد کریں گے۔
اسلام آباد میں ’آزادی مارچ‘ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب پارٹی سربراہان کے ساتھ رابطے میں ہیں، میں کوشش کر رہا ہوں کہ ان سب کے ساتھ کل ملاقات ہو سکے، اس کے بعد ہم آگے کے فیصلے کریں گے۔‘
اتوار کو دھرنے کے شرکا سے اپنے خطاب میں مولانا نے مزید کہا ہے کہ ’وعدہ کرتا ہوں کہ ہم پیچھے کی طرف نہیں جائیں گے، آگے کی طرف ہی جائیں گے۔ یہ تو پلان اے ہے۔ اس کے ساتھ پلان بی بھی ہے اور پلان سی بھی۔‘
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’ان حکمرانوں کو جانا ہوگا اور عوام کو ووٹ کا حق دینا ہوگا۔ ہم یہاں سے جائیں گے تو کسی پیش رفت سے جائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں کہتے ہیں کہ تم شکایات لے کر الیکشن کمیشن میں جاو لیکن الیکشن کمیشن بیچارہ تو ہم سے بھی بے بس ہے، اگر وہ بے بس نہ ہوتا تو آج عوام کی اتنی بڑی تعداد اسلام آباد میں اکھٹی نہ ہوتی۔‘
ان کے بقول الیکشن کمیشن جو پانچ سال میں پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کے کیس کا فیصلہ نہیں کر سکتا وہ دھاندلی کا فیصلہ کیسے کرے گا؟ ’یہ بات بڑی واضح ہے کہ ان حکمرانوں کو جانا ہوگا، عوام کو ووٹ کا حق دینا ہوگا، اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔‘
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے مزید کہا ’ہماری فوج ہر حال میں اس بات کو طے کرے گی کہ پاکستان کے انتخابات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ہم پاکستانی فوج کو متنازع نہیں بنانا چاہتے۔ عوام کے ووٹ کو عزت دینا ہوگی، عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
مولانا کے مطابق مسئلہ صرف ایک شخص کے استعفے کا نہیں بلکہ قوم کی امانت کا ہے۔
حکومت کی جانب سے ان کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے مولانا نے ایک بار پھر کہا کہ ’عمران خان سن لو، یہ تحریک، یہ طوفان، یہ سیلاب آگے بڑھتا جائے گا، یہاں تک کہ تجھے اقتدار سے باہر اُٹھا کر پھینکے اور یہ سیلاب اگر وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کرلے تو کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا لیکن ہم پرامن ہیں۔‘
وزیراعظم کو استعفے کے لیے دو دن کی مہلت
اس سے قبل جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے جمعے کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے دو دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’دو دن ہیں آپ کے پاس، آپ استعفیٰ دے دیں ورنہ پھر اگلے دن ہم نے اس سے آگے فیصلے کرنے ہیں۔‘
ان کی طرف سے وزیراعظم کو دی گئی دو دن کی مہلت اتوار کو ختم ہوگئی تھی۔
دوسری طرف ’آزادی مارچ‘ کے شرکا کو ریڈ زون کی طرف جانے سے روکنے کے لیے حکومت نے اسلام آباد میں سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے ہیں اور شہر کے مختلف مقامات خاص طور پر ریڈ زون میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے جمعے کو کنٹینر سے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہماری جچی تلی پالیسی ہے کہ ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے۔ ہم اداروں کا استحکام چاہتے ہیں لیکن اداروں کو غیر جانبدار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اداروں کے پاس دو دن کی مہلت ہے کہ ہم ان کے بارے میں اپنی کیا رائے قائم کرتے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ہم پرامن لوگ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہم قانون کے دائرے میں رہیں، ورنہ عوام کا یہ اجتماع وزیراعظم کو ان کے گھر جا کر خود گرفتار کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔‘
مولانا کے اس خطاب کے جواب میں حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے سنیچر کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت مولانا فضل الرحمان کے اس بیان کے خلاف عدالت میں جائے گی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم عمران خان کے گھر میں گھس کر انہیں گرفتار کر کے استعفیٰ لے لیں گے۔‘
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے یہ بھی کہا تھا کہ ’حکومت لاچار نہیں، کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ 30، 40 ہزار لوگ آئیں اور حکومت کا تختہ الٹ دیں۔‘
کمیٹی نے مزید کہا تھا کہ کوئی وزیراعظم کے استعفے کا سوچے بھی نہ، اس پر کوئی بات نہیں ہو گی۔ ’اگر قانون کی خلاف ورزی کے نتیجے میں کسی قسم کا کوئی نقصان ہوا تو ذمہ داری دھرنے والوں پر عائد ہو گی۔‘