آج سے تقریبا 19 برس پہلے راولپنڈی کی فضا اتنی گرد آلود نہیں تھی، فروری کی اجلی اجلی دھوپ تھی اور سال 2000 تھا۔
مری روڈ سے متصل سڑک پر واقع کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ٹیسٹ میچ کے شاید تیسرے دن کا دوسرا سیشن جاری تھا۔
پاکستان کی ٹیم اپنی دوسری اننگز میں نصف سے زائد وکٹیں گنوا چکی تھی لیکن ایک نوجوان کھلاڑی سری لنکن بولرز کے سامنے ڈٹا ہوا تھا اور وکٹ پر جم کر کھیلتے ہوئے سینچری مکمل کی لیکن اس کی حوصلہ افزائی اور داد کے لیے سٹیڈیم میں محض مٹھی بھر تعداد میں تماشائی موجود تھے۔
یہ یونس خان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا اور سری لنکا کا آخری ٹیسٹ میچ جو آج سے پہلے اس سے راولپنڈی میں کھیلا تھا، اور میرا پہلی بار کرکٹ کے میدان میں میچ دیکھنے کا تجربہ۔
شاید اس وقت وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ سری لنکا کی ٹیم کو دوبارہ راولپنڈی میں پانچ روزہ میچ کھیلنے کے لیے 19 برس کا انتظار کرنا پڑے گا۔ یعنی جب آخری بار سری لنکا نے راولپنڈی میں ٹیسٹ میچ کھیلا تھا اس وقت پاکستانی ٹیم میں اب شامل کم از کم دو کھلاڑی شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کا جنم بھی نہیں ہوا تھا۔
آج پھر سری لنکا کی ٹیم راولپنڈی کے میدان پر اتری ہے۔ اگلے چار دن راولپنڈی کے باسیوں نے ’مہمان نوازی‘ میں گزارنے ہیں۔ آج پہلا روز تھا۔ دسمبر کی کڑک سردی میں بھی راولپنڈی کے ’بوائز‘ کی صبح جلدی ہوگئی تھی۔
صبح آٹھ بجے سے پہلے ہی کرکٹ شائقین نے پنڈی سٹیڈیم کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، فوج، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے چاک و چوبند دستے سٹیڈیم کے اطراف تعینات ہیں۔ ڈبل روڈ کو ٹریفک کے لیے مکمل طور پر بند کیا گیا ہے جبکہ تمام شہریوں کو چار مقامات پر چیکنگ کے بعد سٹیڈیم میں داخلے کا گرین سگنل ملتا ہے۔
جتنی تعداد سٹیڈیم کے اندر موجود تھی اس سے دگنی تعداد سٹیڈیم کے باہر سے اندر آنے والی قطاروں میں تھی۔
سٹیڈیم کے باہر لمبی قطاریں اس بات کا اشارہ تھیں کہ کرکٹ کا فارمیٹ خواہ کوئی بھی ہو، آج کی پاکستانی نسل بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کو تہہ دل سے خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہے۔ ایک قطار میں کھڑے ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ ’چار، چار گھنٹے انتظار کے بعد ٹکٹ لیے ہیں، میں زندگی میں پہلی بار کوئی ٹیسٹ میچ دیکھنے جا رہا ہوں اور خوشی ایسی ہے کہ بیان نہیں کی جا سکتی۔‘
ٹھیک دس بجے ٹیسٹ میچ کا باقاعدہ آغاز چکا تھا۔ تماشائیوں کی تعداد بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی جن میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی۔ خواتین اور بچے بھی سٹیڈیم میں موجود تھے اور راولپنڈی میں ایک نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی تھے۔
اپنے قریب بیٹھے کالج یونیفام میں بستہ اٹھائے ایک طالب علم سے میں نے پوچھا کہ کیسا لگ رہا ہے اس کا برجستہ جواب تھا کہ ’ٹی 20 جیسا، میں نے لاہور میں پی ایس ایل کے میچ دیکھے ہیں، یہاں بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘
ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے آنے والوں میں نوجوان ہی سب سے زیادہ تھے اور یہ نوجوان، جن کے پاس تفریح کے مواقع بھی محدود ہیں، ٹیسٹ کرکٹ کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار تھے۔
ماحول کچھ ایسا تھا کہ نوجوانوں کی زبان پر کئی سوال تھے، جو میچ کی بدلتی صورتحال کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہے تھے، ’بابراعظم کو پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا‘، ’فواد عالم کیوں نہیں کھیل رہا؟‘، ’سپنر ضرور کھلانا چاہیے تھا‘اور پھر نعرہ بازی۔
ٹیسٹ میچ کا پہلا سیشن بغیر کسی وکٹ کے گزرا تو شروع میں نعرے بازی کرنے والوں کا جوش بھی ٹھنڈا پڑنے لگا لیکن دوسرے سیشن کے آغاز میں ہی شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ نے اوپر تلے دو وکٹیں حاصل کرنے شائقین کرکٹ کے جوش کو پھر گرما دیا اور یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ ٹیسٹ کرکٹ نہیں ٹی 20 میچ ہے جس کی ہر بال پر تماشائیوں کی جانب سے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
سٹیڈیم سے واپسی سے پر کئی طرح کے خیالات میرے ذہن پر حاوی تھے۔ 19 سال قبل سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ میچ، سنہ 2004 میں انڈیا کے خلاف ٹیسٹ میچ اور پھر لاہور میں دس سال اور نو ماہ قبل سنہ 2009 میں ہونے والے سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کی تلخ یادیں۔ کرکٹ سٹیڈیم کے داخلی دروازے تک پہنچنے کا ایک ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہونے والا چند کوس کا فاصلہ دراصل انہی دس برسوں کے ایک طویل سفر کا غمازی تھا۔
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں