اجمل کا طبلہ گفتگو کرتا تھا اور محبت کی تانیں سناتا تھا۔ فوٹو:سوشل میڈیا
بارہ دسمبر کی صبح اسلام آباد میں پنجاب گھرانے کے ایک معروف طبلہ نواز محمد اجمل خاں کا انتقال ہو گیا۔ دو ہزار بارہ میں تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے اس عظیم فنکار کو رات کے وقت سانس لینے میں دقت کی شکایت ہوئی۔ گھر والوں نے ہسپتال لے جانے کی کوشش کی مگر محمد اجمل خان درود شریف پڑھتے رہے، صبح تکلیف بڑھی تو ہسپتال جانے کا کہا لیکن اس وقت تک قضا آواز دے چکی تھی۔ صبح کی روشنی دیکھنے سے پہلے موسیقی کا یہ چراغ 61 برس کی عمر میں بجھ چکا تھا۔
محمد اجمل خاں 17 اپریل 1958 کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں قوالی کے حوالے سے چند گھرانوں کی حکمرانی تھی۔ بخشی سلامت برادران، فتح علی مبارک علی، حافظ عطا محمد اور رشید فریدی کا اس زمانے میں طوطی بولتا تھا۔ محمد اجمل خاں، بخشی خاں صاحب کے صاحبزادے تھے۔ ملتان کے مسلم ہائی سکول میں محمد اجمل خاں زیادہ تر نعت خواں کے طور پر معروف تھے۔ لے کاری کی بنیادی تعلیم انہوں نے عظیم بخشی سے حاصل کی۔ نو سال کی عمر میں ریڈیو ملتان پر پہلی پرفارمنس طبلے پر دی۔ طبلے میں استاد میاں شوکت حسین صاحب نصیب ہوئے۔
موسیقی کی دنیا میں استادی، شاگردی کی رمز بہت پراسرار ہوتی ہے۔ محمد اجمل خاں کو بھی شاگردی میں اسی اسرار سے گزرنا پڑا۔ اجمل خاں بچپن میں ریڈیو پر استاد میاں شوکت حسین کا طبلہ بہت شوق سے سنتے تھے۔ ان کے طبلے کی تھاپ اجمل کے دل پر پڑتی تھی۔ ملاقات کا بہت شوق تھا مگر ملاقات نصیب نہیں ہو رہی تھی۔ ہوا یوں کہ ملتان میں معروف قوال نصرت فتح علی خان کے والد فتح علی خاں کی برسی بڑی شان سے منائی جاتی تھی۔ ننھے اجمل خاں اپنے والد کے ساتھ اس برسی مِیں شریک ہوئے۔
اجمل خاں ابھی بچے تھے، قد چھوٹا تھا اس لیے لوگوں کے رش میں انہیں سٹیج دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سٹیج پر میاں شوکت حسین کے ہاتھ میں طبلہ بول رہا تھا۔ اجمل تھاپ سے پہچان گئے کہ یہ وہی انگ ہے جس کو ریڈیو پر سن سن کر وہ اس ساز کے عشق میں مبتلا ہوئے ہیں۔ بخشی خاں صاحب نے اجمل خاں کو گود میں اٹھایا اور میاں شوکت حسین کے پاس لے گئے۔ اس کے بعد ساری عمر اجمل اپنے استاد کے عشق میں گرفتار رہے۔
آج بھی اگر آپ ’ذکریا پلازہ‘ کی 32 سیڑھیاں چڑھ کراجمل مرحوم کے جی نائین والے فلیٹ میں جائیں تو ڈرائنگ روم میں بخشی خاں صاحب کی تصویر کے برابر ایک تصویر استاد میاں شوکت حسین کی آویزاں ہے۔ اجمل خاں صاحب کے بچے شیری بخشی اور یاور بخشی ان دونوں کو دادا ابو کہتے ہیں۔
اجمل بنیادی طور پر ایک کلاسیکل طلبہ نواز تھے۔ وہ اس سنجیدہ کام کو بہت سنجیدگی سے کرنا چاہتے تھے۔ کلاسیکل طبلہ نوازی کے فن کی باریکیوں کو وہ جتنا جانتے تھے عصر حاضر میں کم لوگ ہی ان نزاکتوں سے واقف ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اجمل خاں نے فلم کی دنیا میں میڈم نور جہاں کے ساتھ صرف دو نغموں میں سنگت کی مگر یہ ماحول ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔ وہ جلد ہی فلم کی دنیا چھوڑ کر موسیقی کی کلاسیکل دنیا میں لوٹ آئے۔
کلاسیکل جاننے والے جانتے ہیں کہ اس ہنر سے واقف طبلہ نواز اپنے انگ میں ’چنچل‘ تو ہو سکتا ہے مگر ’چھچھورا‘ نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے اجمل نے اپنی تمام تر توجہ کلاسیکل انگ کو دی اور اس رنگ کو کمال تک پہنچا دیا۔
ان کے ہنر سے پاکستان کے تمام بڑے گائیک واقف تھے اسی لیے استاد طاری خاں کے بعد کلاسیکل رنگ میں صرف اجمل خاں کا نام گونجتا تھا۔
گائیک اور طبلہ نواز کے درمیان بنیادی رشتہ اعتبار کا ہوتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے استاد غلام علی، اقبال بانو، فریدہ خانم، پرویز مہدی، استاد فتح علی خان ’پٹیالہ والے‘، اعجاز قیصر، سلامت علی خان ’شام چوراسی والے‘، طفیل نیازی، عدنان سمیع خان اور ثریا ملتانیکر جیسے گائیکوں کی اولین فرمائش اجمل ہی ہوتے تھے۔
اجمل کے طبلے کا ’باج‘ انوکھا تھا۔ ان کے ہاتھ میں ’گداز‘ بھی تھا اور ’مٹھاس‘ بھی ۔ ’دایاں اور بایاں‘ ایک سے سر گھولتے تھے، ایک سے لہجے میں بولتے تھے۔
مہارت اتنی تھی کہ مشکل سے مشکل ’لے‘ میں کوئی بھی ’ٹھیکہ‘ لگا لیتے تھے۔ ان کے طبلے کا لہجہ نستعلیق بھی تھا اور برجستہ بھی۔ اتنا نرم ہاتھ مقدر والوں کو نصیب ہوتا ہے۔
اجمل کا طبلہ گفتگو کرتا تھا اور محبت کی تانیں سناتا تھا۔ ہر تھاپ سے ’وفور‘ ٹپکتا تھا۔ ان کے طبلے کے انگ میں کثافت نہیں صداقت تھی۔
اجمل خاں صاحب کو زندگی میں بہت سے اعزازت ملے۔ ان کو پی ٹی وی ایوارڈ ملا، تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ افغانستان سے زاہد شاہ ایوارڈ ان کا مقدر ہوا۔ انہوں نے ساٹھ سے زائد ممالک میں ان کے سربراہان کے سامنے طبلہ نوازی کے فن کا مظاہرہ کیا لیکن ان اعزازات نے اجمل خاں کا کچھ نہیں بگاڑا۔
وہ اپنی درویش صفت سیرت پر قائم رہے۔ ان کی کل کائنات ان کا جی نائن کا چھوٹا سا فلیٹ، ان کے دوبیٹے اور طبلے کی جوڑی ہی رہی۔
اجمل خاں کو تصوف سے بہت لگاؤ تھا۔ ہر وقت درود شریف کا ورد ان کی زبان پر ہوتا تھا۔ ولی اولیاء کے درجنوں قصے ان کو یاد تھے۔ بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ اجمل خاں نے کبھی وضو کیے بغیر طبلے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ وہ اس فن میں پاکیزگی کے قائل تھے۔
اجمل خاں سازندوں کے حقوق پر بہت بات کرتے تھے۔ انہوں نے اس ملک میں سازندوں کو عزت دلوانے کے لیے بہت جدوجہد کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے جب بھی حقوق کی بات کی اپنی ذات سے ماورا ہو کر کی۔
وہ سب کا بھلا چاہتے تھے، سب کی خیر مانگتے تھے۔
اجمل خاں کے انتقال کی خبر ملک کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں زیادہ جگہ نہ پاسکی۔ ملک اس وقت جن ہنگاموں سے گزر رہا ہے وہاں اجمل خاں کس کو یاد رہتے۔
ان کی سرگذشت سنانے کا بس ایک ہی مقصد تھا کہ جس سماج میں ہسپتالوں پر مسلح جتھے حملہ آور ہوں، جہاں دل کے مریضوں کے چہروں سے انتقاماً آکسیجن ماسک اتار لیے جائیں، جہاں ڈاکٹروں کو مریضوں کے سامنے زدوکوب کیا جائے، جہاں مریضوں پر اینٹیں برسائی جائیں، جہاں دھا۔ دھن۔ دھن۔ نا۔ دھا۔ دھن کی آواز گولیوں کی ترتراہٹ میں ڈوب جائے، جہاں جلاو گھیراؤ کی ترغیب دی جائے، جہاں حکومت وقت نفرت کا پرچار کرے اور جہاں آوازوں کو بلند کرنے کی ممانعت ہو، وہاں محبت کا پرچار کرنے والے فنکاروں کو اکثر سانس لینے میں دقت پیش آتی ہے اور وہ دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں