چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ انہیں اور پوری عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے بدنیتی پر مبنی مہم چلائی جا رہی ہے۔
جمعے کو سپریم کورٹ میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب شروع کرنے سے پہلے چیف جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وہ اپنے تحریری خطاب سے پہلے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس کے مطابق ’ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس نے خصوصی عدالت کے مختصر فیصلے کے بعد آدھی رات کو میڈیا سے رابطہ کر کے بیان دیا، جو کہ بے بنیاد اور غلط ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ’ میں اس موقع پر یہ کہوں گا کہ نہ صرف چیف جسٹس بلکہ عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے بدنیتی پر مبنی مہم شروع کر دی گئی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
پرویز مشرف: ’اونچے عہدوں پر فائز لوگوں نے مجھے ٹارگٹ کیا‘Node ID: 448991
-
’مشرف کی سزا پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے‘Node ID: 449036
-
’عدالتی فیصلے کے الفاظ مذہب، انسانیت سے بالاتر ہیں‘Node ID: 449086
خیال رہے کہ دو دن پہلے بدھ کو سپریم کورٹ کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا تھا جس میں میڈیا پر آنے والی اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی گئی تھی جس میں چیف جسٹس سے منسوب کیا گیا تھا کہ وہ فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی کارروائی پر اثر انداز ہوئے تھے۔
چیف جسٹس کا خطاب
اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے اپنے تحریری خطاب میں چیف جسٹس نے اپنے دور میں عدلیہ میں کی گئی اصلاحات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ ان کا دور 11 ماہ سے زائد رہا۔ جس میں 265 ورکنگ دن تھے۔ ان دنوں میں 25 سالوں کے کرمنل مقدمات کا بیک لاگ ختم کیا۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کو باقاعدہ سرگرام فورم میں تبدیل کیا اور اعلی عدلیہ کے ساتھ ساتھ ماتحت عدالتوں میں بھی بغیر اضافی بجٹ اور قوانین و قواعد میں ردو بدل کے صرف نظام کی نوک پلک سنوار کر عوام کو ریلیف فراہم کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ ماڈل کورٹ قائم کیں۔ ان ماڈل کورٹس نے 212 دنوں میں ایک لاکھ 16 ہزار 407 مقدمات کا فیصلہ کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے وقت کسی خوف، لالچ یا دباو کو خاطر میں نہیں لائے بلکہ صرف وہی کیا جس کو درست اور حق سمجھا۔ کبھی یہ نہیں سوچا کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے بلکہ جو درست سمجھا وہ کر گزرا۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے عدالتی سال کے آغاز پر وعدہ کیا تھا کہ وہ عدالتی از خود نوٹس کو ریگولیٹ کرنے کے اقدامات کریں گے تاکہ اس میں اپیل کا حق شامل کیا جا سکے اور اس کا استعمال بھی بہتر ہو۔ اس حوالے سے ورکنگ پیپر فل کورٹ کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔
ریفرنس سے نامزد چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد، وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل سید امجد شاہ، صدر پاکستان بار کونسل سید قلب حسین اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بھی خطاب کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسی ملک سے باہر ہونے کے باعث فل کورٹ ریفرنس میں موجود نہیں تھے۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی چیف جسٹس کے اعزاز مین فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں