خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے جاری بیان میں افغان عوام، حامیوں، الیکشن کمیشن اور عالمی اتحادیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جائز مطالبات پورے ہونے تک ناقص انتخابی عمل کے نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔
ابتدائی نتائج کا اعلان 19 اکتوبر کو ہونا تھا۔ الیکشن کمیشن کی سربراہ حوا عالم نورستانی نے کہا کہ ’ہم نے ایمانداری، وفاداری، ذمہ داری اور اور سچائی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی مکمل کی ہے۔‘
’جمہوریت کی بقا کے لیے ہم نے ایک ایک ووٹ کی عزت کی ہے۔‘
2001 کے بعد سے حالیہ انتخابی عمل کو سب سے زیادہ شفاف سمجھا رہا ہے۔ جرمنی نے شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لیے بائیومیٹرک مشینیں بھی مہیا کی تھیں تاکہ لوگ ایک دفعہ سے زیادہ ووٹ نہ ڈال سکیں۔
اس کے باوجود بیس لاکھ ستر ہزار ووٹوں میں سے تقریباً دس لاکھ ووٹ بےضابطگیوں کے باعث ضائع کر دیے گئے۔
ماضی کے مقابلے میں حالیہ انتخابات میں لوگوں کے ووٹ ڈالنے کی تعداد سب سے کم رہی ہے۔
2014 کے صدارتی انتخابات میں بھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان سخت مقابلہ تھا۔ عبدااللہ عبداللہ کے شکست تسلیم نہ کرنے پر امریکہ نے دونوں حریفوں کے درمیان ثالثی کا کرداد اد ا کیا تھا جس کے نتیجے میں عبداللہ عبداللہ کے ساتھ مل کر قومی اتحادی حکومت قائم ہوئی تھی۔
اس نئی حکومت کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو تاجک قوم سے تعلق رکھنے والے عبداللہ عبداللہ تھے۔
حالیہ انتخابات کے نتائج میں دو مہینے کی تاخیر سے افغانوں کی ملک کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ہی افغان عوام امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے نتائج کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔