Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ملازمت جانے کی وجہ بوسیدہ تعلیمی نظام‘

عروج اورنگزیب نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہیں طلبہ مارچ کی وجہ نوکری سے نکالا گیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا
سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں خبر کا بتنگڑ بنتے دیر نہیں لگتی اورکچھ ایسا ہی ہوا جب طالب علم رہنما عروج اورنگزیب کے حوالے سے یہ بات کہی جانے لگی کہ ان کو گذشتہ ماہ ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ نکالنے پر نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے، حالانکہ حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔
عروج اورنگزیب وہی طالب علم رہنما ہیں جن کی نعرے لگاتے ہوئے ویڈیو نومبر میں سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی۔ یہ ویڈیو لاہور میں ہونے والے فیض فیسٹول پر بنائی گئی تھی جہاں وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ طلبہ یکجہتی مارچ کی کیمپین میں مصروف تھیں۔
یہ مارچ تو بہت کامیاب رہا کیونکہ اسے قریب 50 سے زائد شہروں میں نکالا گیا اور طلبہ کی ایک بڑے تعداد نے حصہ لیا۔ البتہ، عروج کے حوالے سے کچھ افواہیں پھیل گئیں اور وہ یہ کہ ان کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس خبر کی تردید کی ہے۔
 

عروج نے بتایا ہے کہ اپنی گریجویشن سے قبل ہی انہوں نے لاہور کی ایک نجی جامعہ میں بطور محقق کام کرنا شروع کردیا تھا اور اس وقت ان کی تنخواہ صرف پندرہ ہزار روپے تھی۔
’میری دوسری نوکری ایک سکول میں ہوئی جہاں میں نے ایک مضمون گلوبل پرسپیکٹو پڑھانا شروع کردیا، لیکن یہاں مسائل شروع ہوئے جو طلبہ یکجہتی مارچ کی کیمپین سے بہت پہلے کی بات ہے۔ دراصل مسئلہ ہمارے تعلیمی نظام اور میعار کا تھا جس کی وجہ سے مجھے کچھ ہی عرصہ میں کہہ دیا گیا کہ آپ یہ نوکری چھوڑ دیں۔‘
عروج چاہتی ہیں کہ کہ ان کی نوکری کے مسئلے کو اکیلے رکھ کر نہ دیکھا جائے بلکہ اس کو سمجھنے کے لیے موجودہ تعلیمی نظام کی بات کی جائے جو بالکل بوسیدہ ہوچکا ہے۔
’تعلیم صرف نمبروں اور منافع کے لیے رہ گئی ہے‘
عروج نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ عینی شاہد ہیں کہ تعلیم اب صرف کاروبار کی حد تک رہ گئی ہے، جہاں چند بچوں کو دوسرے نالائق بچوں سے الگ کردیا جاتا ہے جن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ بس یہی آگے بڑھ کر ترقی کریں گے۔ اور اسی طرح آپس میں ہی بچوں کو ایک دوسرے سے شدید مقابلہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔
’ہم بچپن سے ہی بچوں کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اچھے نمبرز حاصل کریں گے تب ہی آگے بڑھیں گے کہ یہی صحیح علم حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ ہمیں نہیں بتایا جاتا کہ سیکھا کیسے جائے اورغلط بات کو کیسے رد کر دوبارہ صحیح سیکھا جائے۔‘

’ معاشرہ یہی سمجھتا ہے کہ صرف ایک خاص طبقے یا یونیورسٹی کی لڑکی ہی ایسے بہادری سے آواز اٹھا سکتی ہے۔‘ فوٹو: اردو نیوز

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ چند بچے ہی معاشرے میں آگے بڑھتے ہیں جن کو سکول و کالج میں دوسروں سے الگ بتایا جاتا ہے کیونکہ ان کے نمبرز اچھے ہوتے ہیں۔
’اسی لیے دیکھیے کہ میرے بارے میں بھی مشہور ہوا کہ میں لمز کی طالبہ ہوں کیونکہ معاشرہ یہی سمجھتا ہے کہ صرف ایک خاص طبقے یا یونیورسٹی کی لڑکی ہی ایسے بہادری سے آواز اٹھا سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بطور محقق بھی انہوں نے دیکھا کہ اس تعلیمی نظام میں صرف اسی موضوع پر تحقیق ہوسکتی ہے جس کی اجازت ملے۔ ’جیسے بچوں کے علیحدہ کردیا جاتا ہے ویسے ہی کچھ موضوعات کو بھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بالکل ہی برباد ہوچکا ہے۔‘
عروج نے مزید کہا کہ ابھی جیسے تیسے وہ دوسرے دوستوں کی طرح اپنے روزمرہ کا کام چلا رہی ہیں جیسے ہر انسان کرتا ہے لیکن ان کی نوکری کا معاملہ یکسر الگ تھا اور طلبہ مارچ سے بہت پہلی ہی چل رہا تھا، جو درحقیقت اس تعلیمی نظام کے دیوالیہ پن کے بارے میں انہیں بہت کچھ سکھا گیا۔

شیئر: