شہنشاہ جہانگیر کی خود نوشت سوانح عمری ’توزک جہانگیری‘ کا اعجازالحق قدوسی نے جو ترجمہ کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ اس میں جہانگیر نے لکھا۔:
’لاہور میں موٹھ راجا کی لڑکی جگت گسائیں کے بطن سے شاہزادہ خرم نے پیدا ہوکر عالم کو اپنے وجود سے خرم بنایا اور آہستہ آہستہ عمر کے ساتھ اقبال مندی کے آثاراس سے ظاہر ہوتے گئے۔ وہ میرے والد بزرگوار کی، میری تمام اولاد میں سب سے زیادہ خدمت کرتا تھا اور میرے والد بھی اس کی خدمت اور سعادت مندی کی وجہ سے بہت خوش اور شاکر تھے اور ہمیشہ خرم کی سفارش مجھ سے کرتے رہتے تھے۔ بارہا انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ تمھاری دوسری اولاد کو اس سے کوئی نسبت نہیں۔ میں اسے اپنا حقیقی بیٹا سمجھتا ہوں۔‘
مزید پڑھیں
-
جودھا اکبر کی پریم کہانی میں کتنا سچ؟Node ID: 436051
-
رضیہ سلطانہ، مشرق کی پہلی فیمینسٹNode ID: 437996
-
اکبر کے جلال کو زوالNode ID: 440081
اکبر کے بعد جہانگیر بادشاہ بنے۔ فتح دکن کے بعد شہزادہ خرم کو باپ نے شاہجہاں کے خطاب سے سرفراز کیا۔ جہانگیر نے یہ فرمان بھی جاری کیا کہ شاہجہاں کی کرسی اس کے تخت کے ساتھ رکھی جائے۔ ’توزک جہانگیری‘ میں بتایا:
’یہ عنایت اس فرزند کے ساتھ خاص ہے۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان میں یہ رسم نہ تھی‘
باپ کی محبت و عنایات کا سلسلہ سالہا سال جاری رہا لیکن پھر چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ نورِ نظر سے ناراض ہو کر حکم صادر کیا کہ اسے ’بے دولت‘ کہا جائے۔ جل بھن کراسے بدبخت کہا اور لکھا:
’میں نے اس پر جو عنایتیں اور نوازشیں کی ہیں،ان کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت تک ایسی عنایتیں اور نوازشیں کسی بادشاہ نے اپنے بیٹے کے ساتھ نہ کی ہوں گی۔‘
باپ بیٹے کے درمیان عناد کی دیوار،نور جہاں نے کھڑی کی جن کا امور سلطنت میں بہت زیادہ اثرو رسوخ تھا۔ پہلے شوہر سے نور جہاں کی جو بیٹی تھی اس کی شادی انھوں نے جہانگیر کے چھوٹے بیٹے شہریار سے کی۔ اپنے میاں کے بعد وہ داماد کو ہندوستان کا حکمران بنانا چاہتی تھیں ۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے انھوں نے جہانگیر کو شاہجہاں کی طرف سے متنفر کیا اور نوبت لڑائی تک پہنچ گئی۔
شاہجہاں کی باپ کے خلاف بغاوت ناکام ہوئی۔دوبرس وہ جنوبی ہند، بنگال اور بہار میں رہا۔ آخرکار باپ سے صلح کرتے ہی بنی۔ اس وقت توشاہجہاں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی لیکن جہانگیر کے بعد اقتدار کی جنگ جیت کر نور جہاں کا منصوبہ خاک میں ملا دیا۔چھوٹے بھائی شہر یارکو اندھا کرکے حوالہئ زنداں کیا۔
شاہجہاں نے بچپن میں دادا اور جوانی میں والد کو امورِمملکت انجام دیتے دیکھا، اس تجربے کو اپنے عہد حکمرانی میں بروئے کار لائے اور ایک کامیاب فرمانروا کی حیثیت سے تاریخ میں نام رقم کروایا۔ ان کا عرصہ اقتدار تیس برس پر محیط رہا۔ مؤرخ خافی خاں نے ان کے عہد کو مغلیہ سلطنت کا زمانہ عروج قرار دیتے ہوئے لکھا:
’اگرچہ اکبر فاتح اور قانون ساز تھا لیکن ملک کے انتظام، امن وسکون اور مالیات کی بہتری کے اعتبار سے ہند کا کوئی حکمران شاہجہاں کا ہمسر نہیں۔‘
شاہجہاں کا دور فنونِ لطیفہ کے لیے بہت ثروت مند رہا۔ فن ِتعمیر کو بے نظیر عروج ملا۔ محبوب ملکہ ممتاز محل کی یاد میں تاج محل کی صورت میں لازوال یادگار بنوائی جسے آج بھی دنیا بھر میں ممتاز مقام حاصل ہے۔
شاہجہاں کو موسیقی سے بھی شغف تھا۔کن رس تھے۔ اپنی آواز بھی بہت اچھی تھی۔ فنِ موسیقی کو اکبر کے زمانے میں بڑا فروغ حاصل ہوا لیکن جہانگیرکے دور میں ہندوستانی موسیقی آگے نہ بڑھ سکی جس کی تلافی شاہجہاں کے دور میں بھرپور طریقے سے ہوئی۔ ’راگ درپن‘ کے مؤلف فقیر اللہ کا کہنا ہے کہ شاہجہاں کے زمانے میں موسیقی کے فن کو عہدِ اکبری سے زیادہ عروج حاصل ہوا۔
شاہجہاں کو تصوف سے گہری دلچسپی تھی۔ حضرت میاں میر کے بڑے معتقد تھے۔ ایک دفعہ فرزندِ دلبند داراشکوہ سخت بیمار ہوا۔چار ماہ طبیب علاج کرتے رہے پر صحت یاب نہ ہوئے ۔ فکر مند شاہجہاں، بیٹے کو لے کر میاں میر کے حضور پیش ہوئے اور بیٹے کی تندرستی کے لیے عرض کی۔ داراشکوہ اپنی معروف کتاب ’سکینتہ الاولیاء‘ میں لکھتے ہیں:
’حضرت نے میرا ہاتھ پکڑا۔پھر مٹی کا پیالہ، جس میں خود پانی پیا کرتے تھے، پانی سے بھر کر ہاتھ میں لیا۔اس پر دعا پڑھی اور پانی پینے کے لیے پیالہ اس فقیر کو دیا۔پانی پینے کے ایک ہفتہ بعد میری سب بیماری جاتی رہی اور صحت ہوگئی۔ اسی ہفتے پھر میں نے حضرت کی خدمت میں کسی کو بھیج کر کامل صحت یابی کی دعا کے لیے التماس کی۔ حضرت نے فرمایا: ان چار دنوں میں، فلاں وقت اور فلاں ساعت کامل شفا حاصل ہوجائے گی۔ آپ کے ارشاد کے مطابق اسی روز اور عین اسی وقت مجھے خدا نے شفائے کامل عطا کی۔‘ (فارسی سے اردو ترجمہ: پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی)
سنہ 1657 میں شاہجہاں بیمار ہوئے اور ان کی طبیعت نہ سنبھلی تو انھوں نے اپنے بعد داراشکوہ کو بادشاہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد ان کے چاروں بیٹوں میں اقتدار کی جنگ چھڑی جو اورنگزیب عالم گیر کی فتح پر منتج ہوئی۔ سنہ 1658میں سامو گڑھ کی لڑائی میں شکست کے بعد داراشکوہ فرار ہوکردربدر پھرے اور آخر کار گرفتار ہوئے۔
سنہ 1659 میں اورنگزیب نے علماء سے داراشکوہ کی موت کا فتویٰ لے کر انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شاہجہاں کو اورنگزیب نے آگرہ کے قلعہ میں محبوس رکھا جہاں انھوں نے زندگی کے آخری ساڑھے سات برس گزارے۔ آزمائش کے اس دور میں ان کی بیٹی جہاں آرا نے باپ کا خیال رکھا۔ دورانِ قید شاہ جہاں نے اورنگزیب سے بچوں کو پڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے رکھائی سے جواب دیا کہ بڑے میاں کے دماغ سے بوئے سلطانی نہیں جاتی۔ 22 جنوری 1666کو شاہجہاں کا انتقال ہوا۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں