Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا دریائے سندھ کی ریت میں سونا ہے؟

تحقیقاتی ٹیم کے مطابق کم قیمت میں ٹھیکہ دے کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ اینٹی کرپشن نے دریائے سندھ سے ریت نکالنے کے ٹھیکے کی مد میں سونا حاصل کرنے کے ایک مقدمے میں پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔
محکمہ اینٹی کرپشن کی تحقیقاتی ٹیم کے مطابق دو اہم گواہان کے بیانات قلم بند کیے گئے ہیں جس سے مقدمے کی سمت کا تعین ہو گیا ہے۔ سابق سیکرٹری معدنیات ڈاکٹر ارشد محمود اور سابق ڈی جی معدنیات ظفر جاوید کے بیانات قلم بند کیے گئے ہیں۔
ترجمان اینٹی کرپشن پنجاب عبدالوحید نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ’اعلی افسران کے بیانات قلم بند ہو چکے ہیں اور معاملہ اب تیزی سے اختتام کی طرف گامزن ہے۔‘

 

خیال رہے کہ پنجاب کے ضلع اٹک میں ’ویسا‘ کے مقام پر دریائے سندھ میں ایک چینی کمپنی کو ریت نکالنے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ اینٹی کرپشن تحقیقاتی ٹیم کے مطابق ’ہانگ سپر پارک پرائیویٹ کمپنی‘ کو ریت نکالنے کا ٹھیکہ گذشتہ دور حکومت میں 10 کروڑ روپے میں دیا گیا تھا۔ جتنے علاقے کا ٹھیکہ دیا گیا اس کی کل مالیت 30 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔
تحقیقاتی ٹیم کے مطابق ایک تو کم قیمت میں ٹھیکہ دے کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا، دوسرا دریائے سندھ کے جس حصے سے ریت اٹھانے کا ٹھیکہ دیا گیا وہ ممنوعہ ہے اس علاقے میں کام کرنے پر ویسے ہی پابندی عائد ہے۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق اس علاقے میں معدنیات خاص طور پر سونے کے ذرات ریت میں موجود ہونے کی رپورٹس موجود ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم کے ایک ممبر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چینی کمپنی ہانگ سپر پارک پرائیویٹ نے دریائے سندھ کے اس حصے میں اپنے چار یونٹس لگائے حالانکہ ریت اٹھانے کے لیے اس طرح کی کسی مشینری کی ضرورت نہیں ہوتی جو کہ استعمال کی جا رہی تھی۔ جب سے یہ کمپنی کام کر رہی ہے ریت وہاں سے باہر نہیں نکالی گئی بلکہ مختلف حصوں سے ریت اکھٹی کر کے اس کو ان یونٹس میں پروسس کیا جاتا تھا، اور یہ یونٹس ریت میں سے معدنیات کو الگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

تحقیقاتی ٹیم کے مطابق اس علاقے میں سونے کے ذرات ریت میں موجود ہونے کی رپورٹس موجود ہیں (ٖفوٹو: سوشل میڈیا)

ترجمان محکمہ اینٹی کرپشن عبدالوحید کے مطابق چاروں یونٹس اس وقت محکمے کی تحویل میں ہیں اور ان پر تحقیقات جاری ہیں کہ ریت سے معدنیات الگ کرنے کے لیے اس میں کس طرح کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ پنجاب کے محکمہ اینٹی کرپشن نے تین ماہ قبل محکمہ معدنیات کے پانچ افسران کے خلاف غلط ٹھیکہ دینے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر کے تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

شیئر: