Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ووٹنگ مشین وطن پرستی ثابت کرے گی‘

گذشتہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے ان مقامات کی نگرانی کی تھی جہاں ووٹ کے بعد ووٹنگ مشین رکھی جاتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں دہلی اسمبلی کی 70 نشستوں کے لیے سنیچر کو ووٹ ڈالے گئے اور ووٹ ڈالنے کا وقت ختم ہوتے ہی مختلف نیوز چینلز نے ایگزٹ پول شائع کرنے شروع کر دیے۔
تقریبا تمام ایگزٹ پولز میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ دہلی اسمبلی میں برسر اقتدار عام آدمی پارٹی ایک بار پھر واضح اکثریت حاصل کرسکتی ہے۔
ان ایگزٹ پولز کے جائزے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگوں نے بی جے پی اور کانگریس کو مسترد کر دیا ہے۔
 دہلی اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے 36 سیٹیں چاہئیں اور ایگزٹ پولز اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو اس میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔

 

انتخابی نتائج دو دن بعد منگل کو آئیں گے اور اس کے ساتھ ہی یہ ثابت ہو جائے گا کہ ایگزٹ پولز کس قدر درست ہیں۔
دہلی کے متعلق اس سے قبل سنہ 2015 میں جب اسمبلی انتخابات ہوئے تھے تو تمام ایگزٹ پولز نے عام آدمی پارٹی کی حکومت سازی کی بات کہی تھیں لیکن جتنی بڑی جیت اس نے حاصل کی اس کی کسی کو امید نہیں تھی یعنی اس نے 70 میں سے 67 سیٹیں حاصل کیں جبکہ تین سیٹیں بی جے پی کو ملیں اور دہلی میں مسلسل 15 سال تک حکومت کرنے والی کانگریس کو کوئی سیٹ نہیں مل سکی تھی۔
اگر تمام ایگزٹ پولز کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو اس بار بھی تمام تر ایگزٹ پولز نے عام آدمی پارٹی کو کم از کم 44 سیٹیں دی ہیں جبکہ زیادہ سے زیادہ 68 سیٹیں بھی دی گئی ہیں۔ بی جے پی کو کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ 23 سیٹیں دی گئی ہیں جبکہ کانگریس کو زیادہ تر نے کوئی نشست نہیں دی جبکہ ایک ایگزٹ پول نے دو اور ایک اور پول کے نتائج نے زیادہ سے زیادہ چار سیٹوں کی پیش گوئی کی ہے۔
انڈیا میں سوشل میڈیا پر 'ایگزٹ پول' ٹرینڈ کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ 'ای وی ایم' یعنی الکٹرانک ووٹنگ مشین بھی ٹرینڈ کر رہی ہے۔ خیال رہے کہ انڈیا میں ووٹ کاغذ کی پرچی پر نہیں بلکہ مشین کے ذریعے ڈالے جاتے ہیں جس پر تقریبا تمام انتخابات میں شور اٹھتا ہے اور دھاندلی کی شکایتیں ہوتی ہیں۔
اسی کے پیش نظر دہلی کے گذشتہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے رات دن ان مقامات کی نگرانی کی تھی جہاں ووٹ کے بعد ووٹنگ مشین رکھی جاتی ہیں۔
اس بار بھی عام آدمی پارٹی ایسا ہی کرے گی۔ لیکن دہلی کے انتخابات کے سلسلے میں جہاں یہ دو ٹرینڈز بتا رہے ہیں کہ دہلی کے عوام نے بی جے پی کے ایجنڈے کو قبول نہیں کیا وہیں یہ خوف بھی ہے کہ ای وی ایم سے نتائج کہیں کچھ اور ہی نہ نکلیں۔
ٹھاکر سچن ورما نے ٹویٹ کیا: 'اگر بی جے پی ہارے تو ای وی ایم، پولیس، الیکشن کمیشن سب ٹھیک۔ لیکن جیسے ہی بی جے پی جیتے ای وی ایم ہیکنگ کا معاملہ شروع۔ بی جے پی والے ان کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔'

 جبکہ ایک دوسرے صارف سمرجیت یادو نے تمام قسم کے ايگزٹ پول کے ساتھ لکھا کہ 'اب ای وی ایم مشین کو اپنی وطن پرستی ثابت کرنی ہوگی۔'

ایک اور صارف سندیش جگمن نے لکھا: 'میں پھر سے کہتا ہوں سارے ایگزٹ پول غلط ثابت ہوں گے۔ بی جے پی کو اخير کے دو گھنٹے میں بہت فائدہ ہوا ہے جہاں ایگزٹ پول سے چوک ہو گئی ہے۔ کانٹے کی ٹکر ہے۔ 11 فروری کا انتظار کیجیے۔'

خیال رہے کہ بی جے پی کے لیے دہلی انتخابات میں سب سے زیادہ سرگرم رہنے والے منوج تیواری نے کہا ہے کہ حکومت سازی تو بی جے پی کرے گی اور اسے 48 سیٹیں آئیں گی۔
دوسری جانب دو اہم ٹی وی اینکروں کو بھی سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک زی نیوز کے اینکر سدھیر چودھری ہیں تو دوسری اے بی پی نیوز کی روبیکا لیاقت ہیں۔ سدھیر چودھری نے دہلی کے ووٹروں کو اپنے رات کے پروگرام میں سخت سست سنائیں اور کہا ہے کہ دہلی کے ووٹروں کو ملک سے کوئی واسطہ نہیں ہے چاہے ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے یا وہاں مغل حکومت آ جائے، دہلی والوں کو تو صرف اپنے آرام و آسائش سے مطلب ہے۔
اس پر لوگ انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بات کر رہے ہیں جبکہ روبیکا لیاقت کے متعلق 'روبیکا کی روح بک چکی ہے' نامی ہیش ٹيگ کئی گھنٹوں تک سر فہرست چلتا رہا۔
کرن ویر سنگھ ناندرے نامی صارف نے لکھا: 'اگر یہ آپ کو نہ اکسائے تو کوئی نہیں اکسا سکتا! میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون ہونا چاہیے تھا لیکن یہ اتنا گر چکا ہے کہ وہ بک چکا ہے اور اس حکومت کے لیے متعصب بدعنوان پی آر کمپنی بن چکا ہے۔ 'روبیکا بک چکی ہے' کے ساتھ 'شیم آن سدھیر' ٹرینڈ کرنا چاہیے۔'

سدھیر چودھری اور روبیکا لیاقت کے لیے ٹرول ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے اور وہ اپنی پسند نا پسند کو کبھی چھپاتے بھی نہیں۔
بہر حال ان ایگزٹ پولز سے یہ واضح ہے کہ دہلی کے لوگوں نے شاہین باغ کے نام پر، ہندو مسلم کے نام پر، انڈیا پاکستان کے نام پر، مغل حکومت اور بریانی کے نام پر پولرائز کرنے کی کوشش کو مسترد کر دیا ہے اور کام کے نام پر ووٹ ڈالا ہے۔ تاہم اب بھی نتائج کا انتظار ہے۔
 

شیئر: