Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سول سروس افسران کو ترقی کے لیے مقامی زبان سیکھنا ہوگی

نئے قواعد کے تحت افسران کی ترقی کے معیار کو سخت کیا گیا ہے۔ فوٹو سول سروس اکیڈمی
پاکستان کی حکومت نے سرکاری افسران کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حیسن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ سول سروس اصلاحات کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے۔

ترقی کے لیے اثاثہ جات کی شرط، بورڈ کے پاس 30 نمبر

اصلاحات کے مطابق سرکاری ملازمین کی گریڈ 18 سے 21 میں ترقی کے حوالے سے قواعد تیار کیے گئے ہیں۔ نئے قواعد کے تحت ترقی کے لیے معیار کو سخت کر تے ہوئے اسے میرٹ پر مبنی اور شفاف بنایا گیا ہے اور سرکاری ملازمین پر پہلی بار لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اثاثہ جات ظاہر کریں۔
ترقی کے لیے پروموشن بورڈ کے اختیارات بڑھا دیے گئے ہیں اور بورڈ کے پاس امیدواروں کو اب 15 کے بجائے30 فیصد تک نمبرز دینے کا اختیار ہو گا۔
اسی طرح گریڈ 17 اور 18 میں ترقی کے لیے افسران کو اس صوبے کی زبان پر مناسب عبور حاصل کرنا ہوگا جہاں وہ تعینات ہوں۔ اسی طرح انہیں اپنے علاقے میں عوامی فلاح کے منصوبے بھی شروع کرنے ہوں گے۔
گریڈ 19 کے افسران کو بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے اور پولیس سروس کے گریڈ 19 کے افسران کو انسداد دہشت گردی، انٹیلی جنس، تفتیش، انسداد جرائم اور انتہا پسندی کے حوالے سے تربیت حاصل کرنا ہوگی۔
گریڈ 20 کے افسران کے لیے اپنے شعبے کی سپیشلائزیشن حاصل کرنا ضروری ہو گا اور مخصوص وفاقی وزراتوں میں گریڈ بیس میں باہر سے بھی تکنیکی افراد کی بھرتی کی جا سکے گی تاکہ حکومت کو تکنیکی معاملات پر بہتر مشاورت دے سکیں۔ اس طرح کچھ مخصوص شعبوں جیسے معاشی انتظام، سماجی شعبہ اور تربیت اور انسانی وسائل کے لیے ایک خاص صلاحیت کے حال افسران کا گروپ تیار کیا جائے گا۔

 ڈاکٹر عشرت حسین کو سرکاری اداروں میں اصلاحات کی ذمہ داری گئی تھی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ریٹائرمنٹ 20 سال بعد ہو سکے گی

مسودے کے مطابق حکومت سرکاری ملازمین کو 20 سال سروس کے بعد ان کی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر ریٹائر کر سکے گی جس سے مقابلے کی فضا پیدا ہو گی اور اندرونی محاسبے کے تحت نااہل افسران سے جان چھڑائی جا سکے گی۔ مسودے کے مطابق سول سرونٹس ایکٹ کے سیکشن 13 کے تحت سرکاری ملازمین کو بیس سال ملازمت کے بعد مجاز اتھارٹی کے حکم پر ریٹائر ہو جانا ہوتا ہے اور جہاں پر مجاز اتھارٹی کا حکم نہ ہو ملازمین 60 سال کی عمر پوری ہونے پر ریٹائر تصور ہوں گے تاہم ماضی میں 20 سال بعد ریٹائرمنٹ کا اختیار حکومت نے استعمال نہیں کیا تھا۔

ملک بھر میں پوسٹنگ لازم

دستاویز کے مطابق ماضی میں پولیس افسران اور پاکستان ایڈمینسٹریٹو سروس سال ہا سال اسلام آباد یا کسی ایک ہی صوبے میں خدمات سرانجام دیتے رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کی غیر جانبداری متاثر ہوتی تھی اور وہ متنوع تجربہ حاصل نہیں کر پاتے تھے۔ اصلاحات کے تحت اب ہر سرکاری افسر کی پہلی پوسٹنگ اپنے ڈومیسائل کے صوبے سے باہر ہو گی اور گریڈ 19 میں ترقی کے لیے ہر افسر کے لیے لازم ہو گا کہ گریڈ 17 اور 18میں سروس کے دوران اپنے صوبے سے باہر مرد ہونے کی صورت میں پانچ سال اور خاتون کی صورت میں تین سال کام کیا ہو۔
اسی طرح گریڈ 20 میں ترقی کے لیے ہر مرد افسر کے لیے لازم ہو گا کہ اس نے دو سال سخت علاقوں (جن کا تعین اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کرے گی) میں نوکری کی ہو۔ اس وقت تک بلوچستان اور گلگت بلتستان سخت علاقے قرار دیے جا چکے ہیں۔
اصلاحات کے تحت کوئی افسر دس سال سے زائد ایک صوبے یا اسلام آباد میں سروس نہیں کر سکے گا اور دس سال بعد دوسرے صوبے میں ٹرانسفر لازمی ہو گی۔

ڈاکٹر عشرت کے مطابق اصلاحات پر ٹائم فریم کے اندر عمل کیا جائے گا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کارکردگی کا جائزہ

اصلاحات کے مسودے کے مطابق سرکاری ملازمین کی کارکردگی جانچنے کا موجودہ طریقہ واضح نہیں ہے اور اچھی اور بری کارکردگی میں تمیز نہیں کی جاتی اور سزا وجزا کا نظام بھی واضح نہیں۔
اصلاحات کے تحت اب تمام 40 وفاقی وزارتوں کے وزیروں اور وزیراعظم کے درمیان جولائی 2020 تک معاہدے کیے جائیں گے۔ اسی سلسلے میں سوموار 17 فروری سے دس وزارتیں ایک پائلٹ فیز میں کارکردگی کے معاہدے پر دستخط کریں گی۔ اس نئے نظام کے تحت سرکاری افسران کی کارکردگی کے اعتبار سے رینکنگ کی جائے گی۔ پرفارمنس انڈی کیٹرز بنائے جا رہے ہیں اور ملازمت کے رہنما اصولوں کی بنیاد پر کارکردگی جانچی جائے گی۔

سزا و جزا کا موثر نظام

اصلاحات کے تحت نئے ڈسپلن رولز بھی بنائے گئے کیونکہ ماضی میں سزاوجزا کا عمل بہت طویل اور غیر موثر تھا۔ نئے نظام کے تحت انکوائری افسر کسی سرکاری ملازم کے خلاف شکایت کی 60 دن کے اندر تحقیق کرے گا اور پھر 30 دن کے اندر مجاز اتھارٹی اس سرکاری ملازم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی پابند ہو گی۔
قصور وار پائے گئے افسران کے خلاف نہ صرف جرمانے کیے جا سکیں گے بلکہ ان کی پرانی سروس بھی ضبط کی جا سکے گی اور مالی بے ضابطگی کی صورت لوٹی گئی رقم بھی واپس لی جائے گی۔
ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق تمام اصلاحات پر متعلقہ ٹائم فریم کے اندر عمل درآمد مکمل کر لیا جائے گا۔ یاد رہے کہ وزیراعظم نے پی ٹی آئی کی حکومت کے آغاز میں ہی ڈاکٹر عشرت حسین کو پاکستان کے حکومتی اداروں میں اصلاحات کے نظام کی نگرانی سونپی تھی۔

سرکاری ملازمین پر اپنے اثاثہ جات ظاہر کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ فوٹو: پی آئی ٹی بی

 ڈاکٹر عشرت حسین جو مشیر بننے سے قبل ایک معروف امریکی تھنک ٹینک میں خدمات سرانجام دے رہے تھے، سول سروس کے حوالے سے کئی کتابوں اور مقالہ جات کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹرعشرت حسین نے اپنی کتابوں میں پاکستان کی بیوروکریسی اور سول سروس کی خامیوں کی نشاندہی کی تھی۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے گریڈ 17 سے 21 تک کے متعدد افسران نے اصلاحات کو خوش آئند قرار دیا تاہم ان میں چند خامیوں کی بھی نشاندہی کی۔
پولیس سروس کے ایک سینیئر افسر کے مطابق سرکاری افسران کی ترقی کا ایک شفاف نظام ہونا چاہیے جس کے تحت تھرڈ پارٹی امتحان اور انٹرویو کے ذریعے افسران کو جانچا جائے اور ان کی لیڈرشپ کوالٹی، بحران میں قوت فیصلہ اور قابلیت کا جائزہ لے کر انہیں ترقی دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پروموشن بورڈ کو زیادہ نمبر دینے سے اعلیٰ افسران کے پاس بہت زیادہ اختیارات آ جائیں گے اور سیاسی اثر رسوخ یا رسائی نہ رکنے والے افسران کی ترقی مشکل ہو جائے گی۔
ایک اور افسر نے اصلاحات میں ترقی کی شرائط اور کارکردگی کے جائزے کے حوالے سے دی گئی تجاویز کو سراہا۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری افسر نے پروموشن بورڈ کو 30 نمبر دیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سے من پسند افسران کو سفارش کی بنا پر ترقی کا راستہ کھل سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افسران کی سالانہ کارکردگی رپورٹ ان کی اہلیت جانچنے کا بہتر طریقہ ہے کیونکہ وہ ان کے ہی سینیئر افسران نے لکھی ہوتی ہے جبکہ بورڈ نے تو امیدواروں کو اپنے سامنے کام کرتے دیکھا ہی نہیں ہوتا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں