فیاض علی کی نو ماہ کی تنخواہ چینل کی طرف بقایا تھی جو چینل نے ان کے انتقال کے فوراً بعد ادا کر دی (فوٹو: سوشل میڈیا)
کسی بھی انٹرویو کرنے والے کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس سوالات کا ذخیرہ کبھی ختم نہ ہو۔ مخاطب چاہے کتنے پینترے بدلے، گھن چکر دے، ایک ہی بات کو چاہے کئی انداز میں پیش کرے، انٹرویو لینے والے کا کمال یہ ہوتا ہے کہ صاحب انٹرویو کے ہر جواب سے پہلے ایک نیا سوال اس کے منہ میں ٹھونس دینے کو تیار ہو۔ پے درپے سوالات کے وار کرے۔ بات سے بات نکالے اور سوال میں سے ایک نیا سوال تخلیق کرے۔ یہی انٹرویو لینے والے کی معراج ہے۔ یہی اس کی کامیابی ہے۔
ایسے انٹرویو لینے والے سخت ناکام تصور ہوتے ہیں جن کے پاس دوران انٹرویو سوالات ختم ہو جائیں اور وہ ہونقوں کی طرح مخاطب کا منہ دیکھنے لگیں۔ یہ لمحہ انٹرویو لینے والے کی ناکامی کا ہوتا ہے۔ یہ اس کی شکست ہوتی ہے۔ یہ اس کی کم مائیگی کا ثبوت ہوتا ہے۔
گذشتہ دنوں آپ نے اخبارات میں ایک خبر پڑھی ہوگی کہ کیپٹیل ٹی وی کے ایک 26 سالہ نوجوان کیمرہ مین فیاض علی کو اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ انتقال کر گئے۔ اطلاعات کے مطابق فیاض علی کی قریباً نو ماہ کی تنخواہ چینل کی طرف بقایا تھی جو چینل نے ان کے انتقال کے فوراً بعد ادا کر دی۔ نہ صرف یہ بلکہ چھ ماہ کی تنخواہ اضافی بھی ادا کرنے کا اعلان کر دیا۔
حکومت وقت کو بھی اس ناگہانی موت پر تشویش ہوئی اور فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کے دوستوں کے اصرار پر مرحوم کے لیے دس لاکھ کی معاونت کا اعلان کیا اور صحافیوں کے حقوق کے لیے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
اس کے علاوہ فیاض علی کے بھائی علی اعجاز کو سرکاری ملازمت دینے کا بھی اعلان کیا۔ فیاض علی کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ نو ماہ کی تنخواہ کا بار بار تقاضہ کرنے پر انہیں کو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
فیاض علی کے دو بھائی اور ایک بہن ہیں۔ بڑے بھائی ایک کمپنی میں سکیورٹی گارڈ ہیں۔ چھوٹا بھائی علی اعجاز قریباً 12 ہزار روپے تنخواہ پر ایک پرائیویٹ سکول میں استاد ہے۔ بہن بھی چھوٹی موٹی ملازمت کرتی ہیں۔ ان کے والد مزدور تھے اور فالج کے سبب اپنی قوت گویائی کھو چکے ہیں، بول نہیں سکتے بس فیاض کی تصویر دیکھ دیکھ کر روتے رہتے ہیں، والدہ گھر کا کام کاج کرتی ہیں۔ اس شجرے کے مطابق اس گھر کا سب سے کماؤ پوت فیاض علی تھا جس کی تنخواہ کل 20 ہزار تھی۔
فیاض علی مرحوم کا تعلق چونکہ میڈیا سے تھا اس لیے صحافی تنظیموں نے ترنت سے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا۔ چینل کے دفتر کے سامنے ایک احتجاجی جلسہ کیا اور چند اخبارات اور چینلز نے اس خبر کو ایک آدھ دن اچھالا پھر سب کرپشن کے خلاف ہونے والی روزمرہ خبروں میں مصروف ہو گئے۔
فیاض علی مرحوم کا گھر اسلام آباد کے اس علاقے میں ہے جہاں کھڑے آپ کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ اسلام آباد ہے۔ گولڑہ شریف والی سڑک کے سامنے سے ایک کچی سی پگڈنڈی اوپر کی جانب جاتی ہے۔ گڑھوں کی بہتات کی وجہ سے اس پگڈنڈی پرعام گاڑی بھی چاند گاڑی کی طرح چلتی ہے۔ کچھ دیر ہچکولے کھانے کے بعد آپ مہر آبادی کے ایسے ٹوٹے پھوٹے گھر کے سامنے پہنچتے ہیں جو آدھا کچا اور آدھا پکا ہے۔ گھر کی نشانی یہ ہے کے اس کے سامنے کوڑے کا ڈھیر لگا ہے اور غلاظت سے بھرے نالے کا یہ نکتہ انجام ہے۔ اس ٹوٹے پھوٹے گھر میں سب سے زیادہ جگہ برآمدے نے گھیر رکھی ہے۔ اس برآمدے کو عبور کر کے ایک کمرہ ہے جس پر ایک بڑا تخت بچھا ہے۔ اس کمرے کا سب سے قیمتی اثاثہ دو ٹوٹے ہوئے صوفے ہیں جس پر بیٹھ کر آج کل بڑے بڑے وزیر مشیر آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں۔
اعجاز علی نے بتایا کہ اسی کمرے کے کونے میں گدا بچھا کر فیاض علی اکثر سویا کرتا تھا۔ گھر کی دیواروں پر پلستر نہیں۔
میں نے کاغذ پینسل سنبھال کر فیاض علی کی والدہ سے پہلا سوال کیا کہ کچھ فیاض علی کے بارے میں بتائیں۔ فیاض کی والدہ کا چہرہ یہ سوال سن کر غم سے سیاہ ہو گیا اور انہوں نے کچھ اس طرح سے بات شروع کی۔ فیاض کو ہم گھر میں ’گگو‘ کہتے تھے۔ ہر وقت ہنستا رہتا تھا ۔ بڑی مذاقی طبیعت تھی اس کی۔ ہم نے ان کے نکاح کا سوچا تھا اگلے مہینے بات پکی کرنا تھا۔ بس اس کی تنخواہ کا انتظار تھا۔ گگو کچھ دنوں سے بالکل مذاق نہیں کرتا تھا۔ غصے میں رہنے لگا تھا۔ بہت پریشان تھا۔ موٹر سائیکل میں پٹرول کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو کئی کلومیٹر دور چینل کے دفتر میں پیدل ہی پہنچ جاتا تھا۔ ڈیوٹی بڑی محنت سے کرتا تھا۔
چینل والوں کو اس کی موت کا پتہ بھی اس طرح چلا کہ پوچھنے کے لیے فون آیا کہ وہ آج ڈیوٹی پر کیوں نہیں آیا؟ میں نے اسے کئی دفعہ کہا کہ اگر تنخواہ نہیں ملتی تو نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتا تو وہ کہتا تھا کہ اس نوکری پر رہتے ہوئے ہی کوئی نوکری ملے گی۔ لیکن نہ نئی نوکوی ملی نہ تنخواہ ملی۔
اب فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے میرے دوسرے بیٹے کو نوکری دی ہے منسٹری میں۔ اسسٹنٹ کیمرہ مین۔ لیکن میں نے منع کر دیا ہے۔ باؤ جی کیمرہ مین نہیں بنانا اب کسی کو۔ چینلوں کے کیمرہ مین بغیر تنخواہ کے ہی کام کر کر کے مر جاتے ہیں۔ یہ کہنا تھا کہ فیاض علی کی والدہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور انہوں نے میلے رنگ کی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ ساتھ بیٹھے بھائی علی اعجاز بھی آب دیدہ ہو گئے۔ فیاض کے والد ایک بار پھر ڈبڈبائی آنکھوں سے فیاض کی تصویر کو دیکھنے لگے۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ یاد نہیں مجھے صرف اتنا علم ہے کہ اس سوگوار سناٹے میں، میرے سب سوال اچانک ختم ہوگئے۔ حالانکہ مجھے اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ کسی بھی انٹرویو کرنے والے کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس سوالات کا ذخیرہ کبھی ختم نہ ہو۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں، ویڈیوز اور کالم و بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں