Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میرے بیٹے کہتے ہیں کہ میں بدقسمت جادوگرنی ہوں‘

ہر سال متعدد افراد بنگال ٹائیگر کا نشانہ بنتے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
بنگلہ دیش میں اگر کوئی شخص حادثے کا شکار ہو جائے تو اکثر اس کی ہلاکت کا ذمہ دار بیوی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔  
ایسی بیوہ سے محلے دار اور خاندان والے تعلق ترک کر دیتے ہیں اور اسے ’جادوگرنی‘ کا لقب دے دیا جاتا ہے۔
راشدہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب ان کا شوہر بنگال ٹائیگر کا نشانہ بن گیا۔ شوہر کی بدقسمتی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے راشدہ کے بیٹوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔
راشدہ کا تعلق بنگلہ دیش کے گاؤں گبورہ سے ہے جہاں اکثر لوگ شہد کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کو راشدہ نے بتایا کہ ان کے شوہر شہد کی غرض سے جنگل گئے تو بنگال ٹائیگر نے حملہ کر کے انہیں ہلاک کر دیا۔
’میرے بیٹے کہتے ہیں کہ میں بدقسمت جادوگرنی ہوں۔‘
راشدہ اپنے بیٹوں کے سلوک پر انتہائی دکھی ہیں لیکن اس رویے پر انہیں قطعاً حیرت نہیں۔
راشدہ نے اپنے آنسو پونچتے ہوئے کہا کہ ’آخر وہ بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔‘
راشدہ ایک بوسیدہ حال جھونپڑی میں رہتی ہیں جس کی چھت طوفان کی نذر ہو گئی تھی۔

ایک مقامی فلاحی ادارے کے مطابق لوگوں کے عقائد تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہے (فوٹو: اے ایف پی)

راشدہ کے ہمسائے محمد حسین نے راشدہ کی مدد نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ نحوست کا شکار نہیں ہونا چاہتے۔
گاؤں کے لوگ شہد کی تلاش میں سندربن کے جنگلات کا رخ کرتے ہیں جہاں ایک بڑی تعداد آدم خور بنگال ٹائیگر کی ہے۔
10 سال کے عرصے میں پانچ سو سے زیادہ افراد بنگال ٹائیگرز کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ان کی موت پیچھے رہ جانے والی خواتین کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث بن جاتی ہے۔
ایک مقامی فلاحی ادارے کے سربراہ موہن کمار نے کہا کہ وہ ’چیتا بیواؤں‘ کی معاشرے میں حقوق کی بحالی کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن لوگوں کے عقائد تبدیل کرنا انتہائی مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوان کا بیواؤں کی جانب تعصب کم ہوتا ہے۔

شیئر: