متنازع مواد: ایف آئی اے کا کمپنیوں سے چار ہزار بار رابطہ
متنازع مواد: ایف آئی اے کا کمپنیوں سے چار ہزار بار رابطہ
اتوار 23 فروری 2020 16:32
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 2019 کے دوران مختلف سوشل میڈیا کمپنیز سے چار ہزار سے زائد شکایات پر مواد ہٹانے یا تفصیلات فراہم کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے چار ہزار 226 مرتبہ سائبر کرائم قوانین کی خلاف ورزی پر مختلف سوشل میڈیا کمپنیز سے رابطہ کیا جن میں دو ہزار 362 درخواستوں پر ان کمپنیز کی جانب سے مثبت جواب موصول ہوا جبکہ ایک ہزار 864 درخواستوں پر کمپنیز کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
ایف آئی حکام کے مطابق سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مختلف شکایات آنے کی صورت میں سوشل میڈیا کمپنیز سے مواد ہٹانے یا تفصیلات فراہم کرنے کے لیے رابطہ کیا جاتا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیز اپنے قوانین سے متصادم پوسٹس کے خلاف کارروائی کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا کمپنیز کی جانب سے جواب موصول ہونے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔
دستاویز کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم نے سب سے زیادہ دو ہزار 945 بار فیس بک حکام سے رابطہ کیا جس میں ایک ہزار 655 درخواستوں پر فیس بک کی جانب سے مثبت جواب ملا تاہم ایک ہزار 290 درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے انسٹاگرام حکام سے 591 بار مختلف مواد کے خلاف شکایات پر رابطہ کیا ہے جس میں سماجی رابطے کی سائیٹ کی جانب سے 360 درخواستوں پر ریکارڈ فراہم کیا گیا ہے جبکہ 231 درخواستوں پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 196 بار واٹس ایپ حکام سے بھی رابطہ کیا گیا ہے جس پر واٹس ایپ 32 درخواستوں پر مثبت جواب دیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے مائیکرو بلاگنگ سائیٹ ٹوئٹر سے بھی 89 مرتبہ رابطہ کیا لیکن ٹویٹر کی جانب سے کسی بھی شکایت پر مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔
ایف آئی کی جانب سے 35 مرتبہ متنازع مواد ہٹانے کے لیے یوٹیوب سے رابطہ کیا گیا لیکن یوٹیوب حکام نے کسی بھی درخواست کا مثبت جواب نہیں دیا۔
دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے نے ڈیلی موشن، لنکڈ ان، سنیپ چیٹ، آئی ایم او، وی چیٹ، سکائیپ اور او ایل ایکسحکام سے بھی رابطہ کیا ہے۔
تاہم ٹویٹر، یوٹیوب، ڈیلی موشن، لنکڈ ان، سنیپ چیٹ، آئی ایم او اور سکائیپ کی جانب سے ایف آئی حکام کو کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔