انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں پرتشدد واقعات سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 ہو چکی ہے جب کہ 189 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
دہلی میں گرو تیگ بہادر ہسپتال کے ڈائریکٹر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ زخمیوں کا علاج جاری ہے جن میں سے 60 کو گولی لگنے سے زخم آئے ہیں۔
انڈین ٹیلی ویژن چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر اجت دووال آج مرکزی کابینہ کے اجلاس میں دہلی کی صورتحال پر بریفنگ دیں گے۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا: ’حکومت کے قوانین سب نے تسلیم کیے‘Node ID: 460646
-
انڈیا میں پرتشدد مظاہرے، پولیس اہلکار سمیت تین افراد ہلاکNode ID: 461061
-
کانگریس کا ٹرمپ کے اعزاز میں ضیافت میں شرکت سے انکارNode ID: 461136
دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ مظاہروں میں زخمی ہونے والے افراد کو ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد دی جائے اور ان کو محفوظ راستہ دیا جائے۔
منگل کو دہلی پولیس نے کہا تھا کہ موجپور، جعفر آباد، چاند باغ اور کاراوال نگر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
تشدد کے زیادہ واقعات شمال مشرقی دہلی کے علاقے گوکولپوری، موجپور اور برہمپوری میں ہوئے۔
بظاہر شہریت کے متنازع قانون کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپ نے فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا ہے اور یہ شمال مشرقی دہلی کے مختلف حصوں میں پھیل گیا جس میں پتھراؤ کے علاوہ آتشزدگی کے بہت سارے واقعات دیکھے گئے۔
دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجروال نے ٹویٹ کیا ہے کہ دہلی میں صورتحال خطرناک ہے۔ پولیس تمام تر کوششوں کے باوجود صورتحال پر قابو پانے اور لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیر داخلہ کو کرفیو کے نفاذ اور فوج بھجوانے کی درخواست کر رہے ہیں۔
I have been in touch wid large no of people whole nite. Situation alarming. Police, despite all its efforts, unable to control situation and instil confidence
Army shud be called in and curfew imposed in rest of affected areas immediately
Am writing to Hon’ble HM to this effect
— Arvind Kejriwal (@ArvindKejriwal) February 26, 2020
گذشتہ روز وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی جس میں وزیراعلیٰ اروند کیجریوال اور دہلی کے لفٹیننٹ گورنر سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
میٹنگ کے بعد اروند کیجریوال نے کہا کہ ’پارٹی کی سیاست سے اوپر اٹھ کر امن و امان بحال کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائيں گے۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ وزیر داخلہ نے وافر تعداد میں سکیورٹی اہلکار فراہم کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ میٹنگ میں شرکت کرنے والے کانگریس کے رہنما سبھاش چوپڑہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرتشدد واقعات کو روکنے کے لیے اشتعال انگیز بیان دینے والے افراد کو ذمہ دار ٹھہرانا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس کا شروع سے مؤقف رہا ہے کہ تشدد سے احتجاج کرنے والے کمزور ہو جائیں گے۔
شمال مشرقی دہلی کے رہائشی اور سماجی کارکن اویس سلطان خان اور جنید نے بتایا کہ سیلم پور، مصطفی آباد، بابرپور، جعفرآباد، شاستری پارک، نور الہی، کردمپوری، کبیر نگر، موجپور اور شمال مشرقی دہلی کے مختلف علاقوں میں حالات کشیدہ ہیں۔ 'دائیں بازو کے مسلح غنڈے کھلے عام گھوم رہے ہیں۔'
انھوں نے بتایا کہ 'رات تین بجے برہمپوری کی اکھاڑے والی گلی میں فائرنگ کی آواز سنی گئی اور دکانیں لوٹی گئیں۔'
ان کا کہنا ہے کہ جب تک کہ وہاں پولیس تعینات نہیں کی جاتی ہے اور کرفیو نافذ نہیں کیا جاتا ہے حالات کو قابو میں کرنا بہت مشکل ہوگا۔
معروف صحافی نیدھی رازدان نے منگل کے روز دوپہر بعد ٹویٹ کیا ہے کہ ان کے دو ساتھیوں اروند گوناشیکھر اور سوربھ کو اس وقت تک پیٹا گیا جب تکہ انھیں یہ نہیں پتہ چلا کہ 'ارے یہ تو ہمارے لوگ ہندو ہیں'۔ انھوں نے لکھا کہ 'یہ انتہائی قابل نفرت ہے۔'
Two of my colleagues @arvindgunasekar and @saurabhshukla_s were badly beaten by a mob just now in Delhi, they only stopped beating them after realising they are “our people- Hindus”. Absolutely despicable.
— Nidhi Razdan (@Nidhi) February 25, 2020
سی این این کی صحافی زیبا وارثی نے لکھا کہ 'یہ سی اے اے کے حامی یا مخالف مظاہرین نہیں ہیں بلکہ یہ فسادی ہیں جو کہ گاڑیوں کو گھروں کو آگ لگا رہے ہیں دکانوں کو لوٹ رہے ہیں اور جو میڈیا والے ان کے جرائم دکھا رہے ہیں ان پر حملہ کر رہے ہیں۔'
These are not Pro or Anti CAA ‘protesters’. These are RIOTERS who are burning down vehicles, homes, looting shops, attacking the media which is trying to report their crimes.#DelhiRiots
— Zeba Warsi (@Zebaism) February 25, 2020
دوسری جانب علی گڑھ میں پراسرار خاموشی چھائی ہے۔ اتوار کے واقعات میں ایک درجن سے زیادہ افراد کو ہسپتال میں داخل کرایا گيا ہے۔ پولیس کے ایڈیشنل ڈی جی نے کہا ہے کہ جس 22 سالہ محمد طارق کو گولی لگی تھی اب اس کی حالت بہتر ہے اور اگر ضرورت پڑی تو اسے دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز بھیجا جائے گا۔
سوشل میڈیا صارفین جلانے، تشدد، تصادم اور احتجاج پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ان واقعات سے متعلق ویڈیوز اور تصاویر بھی شیئر کرتے رہے ہیں۔
انڈین ٹیلی ویژن میزبان ساکشی جوشی نے وائرل ہونے والی ایک تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’اگر آپ ایک انڈین ہوتے ہوئے اس تصویر پر درد کے مارے روتے نہیں، متاثر نہیں ہوتے یا خود پر دباؤ محسوس نہیں کرتے تو مجھے کہنے دیں کہ نہ تو آپ انڈین ہیں نہ ہی انسان۔‘
اپنی ٹویٹ میں انہوں نے مزید لکھا کہ ’اگر آپ اس شخص کے مذہب سے قطع نظر اس سے ہمدردی نہیں کرتے تو میں اس کی ذمہ داری آپ کے والدین کی پرورش پر عائد کروں گی۔‘
If u as an Indian do not cry in pain, or be affected , or be depressed on seeing this image, then let me tell u Neither u're an Indian nor even a human.
And yes if u do not feel for this person irrespective of his religion, then i would blame ur parents for pathetic upbringing https://t.co/pheTaI1hcZ— Sakshi Joshi (@sakshijoshii) February 24, 2020
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کی ہنگاموں پر لی گئی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ تصویر میں ایک نوجوان کو ڈنڈوں سے زدوکوب کرتا دکھائی دیا گیا ہے جو اپنے سر کو ہاتھوں میں چھپائے زمین پر گرا ہوا ہے۔
دہلی پولیس اور فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹس کی رپورٹس میں بھی تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ بتایا گیا ہے۔ انڈین میڈیا ’اے این آئی‘ نے سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی فائر بریگیڈ کو چند گھنٹوں میں شمال مشرقی دہلی سے آگ لگنے کی 45 شکایات موصول ہوئیں، فائر بریگیڈ کے تین اہلکار زخمی ہوئے، جب کہ آگ بجھانے کے لیے استعمال ہونے والی ایک گاڑی جلا دی گئی۔
سوشل میڈیا پر زیرگردش ویڈیوز میں آگ لگنے اور اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ ویوک رنجن اگنی ہوتری نے آگ اور دھوئیں کے مناظر پر مشتمل ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے ملک شام سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں نئے انڈیا کا خواب دیکھ رہا تھا لیکن اپنے ہی ملک میں نیا شام مل گیا۔‘
I have been dreaming of a #NewIndia and I get #NewSyria in my own country. pic.twitter.com/feng24HWnV
— Vivek Ranjan Agnihotri (@vivekagnihotri) February 24, 2020
دہلی میں ہنگاموں اور پولیس کے تشدد میں ملوث ہونے کا ذمہ دار وزیرداخلہ کو ٹھہراتے ہوئے استعفی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
جواب میں انڈین حکمراں جماعت بی جے پی کے حامی اروند کجریوال کی پرانی ٹویٹس شیئر کرتے رہے جس میں وہ اس وقت کی وزیراعلیٰ کو جنسی حملے روکنے میں ناکامی کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔
کمال گیان نامی ایک ہینڈل نے دہلی پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا ’یہ ہنگامے دو روز قبل شروع ہوئے دہلی پولیس، امیت شاہ اور وزارت داخلہ کیوں احتیاطی اقدامات نہ کر سکے، یا وہ انتظار کر رہے تھے کہ رتن لال قتل ہو جائے۔‘
دہلی پولیس کے ہیڈ کانسٹیبل رتن لال پتھراؤ کے نتیجے میں سر پر لگنے والی چوٹوں سے ہلاک ہو گئے تھے۔ کچھ صارف پولیس اہلکار کی تصاویر شیئر کر کے حکومت بالخصوص وزیرداخلہ امیت شاہ سے مطالبہ کرتے رہے کہ وہ احتجاج کرنے والوں سے سختی سے نمٹے۔
مبینہ طور پر پولیس اہلکار کے قتل کے ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے ایک نوجوان کی تصویر بھی ٹائم لائنز پر نمایاں رہی۔ انڈیا کی سابق سپر ماڈل اور اداکارہ کوینا مترا نے بھی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’شرمناک ہے، کیا یہ اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں؟ انہوں نے پولیس والا قتل کیا، انڈین کا دارالحکومت جلایا، اب آگے کیا ہو گا۔‘
پرتشدد مناظر رکھنے والے وائرل ویڈیوز میں ایک ایسی ویڈیوز بھی نمایاں رہی جس میں کچھ زخمی سڑک پر گرے ہوئے ہیں۔ جب کہ قریب موجود پولیس اہلکار ان پر تشدد کرتے ہوئے انڈین قومی ترانہ پڑنے کا مطالبہ کرتے سنے جا سکتے ہیں۔
Horrific! Injured people are laying down on the ground and they are forced to sing the national anthem.
Security forces record them, beating them and shout "freedom". #DelhiBurning #DelhiViolence #India #DelhiIsBurning #DelhiPolice #TrumpIndiaVisit pic.twitter.com/qrUWTrrz0g
— DOAM (@doamuslims) February 24, 2020
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دہلی میں متنازعہ شہریت بل کے خلاف پرتشدد احتجاج کی نئی لہر میں اب تک ایک پولیس اہلکار سمیت کم از کم پانچ افراد ہلاک جبکہ 90 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
-
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں