کورونا وائرس کی وجہ سے ہاتھ ملانے والا یقیناً دوست نہیں ہو سکتا۔ فائل فوٹو
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ایسے میں جب کہ ’کورونا وائرس‘ ہاتھوں ہاتھ پھیل رہا ہے، ہاتھ ملانے والا یقیناً دوست نہیں ہو سکتا۔ ان حالات میں دوستی کا تقاضا تو یہ ہے کہ یار لوگوں کو دور ہی سے سلام کہا جائے کہ:
دوست کو فارسی میں ’یار‘ بھی کہتے ہیں، جس کی جمع ’یاران‘ ہے۔ عجیب بات یہ کہ اردو شاعری میں ’یار‘ کا استعمال روا ہے مگر عام گفتگو میں اسے سلینگ (slang) میں شمار کیا جاتا ہے۔ یار سے تعلق گہرا ہو تو اُسے ’جگری یار‘ کہتے ہیں۔ آج کل مارکیٹ میں ’یار‘ سے زیادہ ’جگر‘ ’اِن‘ ہے۔
عربی میں دوست کو ’ندیم‘ کہتے ہیں، اسی رعایت سے یہ لفظ اردو میں بھی برتا جاتا ہے۔ ناگپور’انڈیا‘ کے ’شاطر حکیمی‘ کہہ گئے ہیں
طوفان کا ’ندیم‘ تباہی کا یار ہوں
باغی ہوں اور دشمن صبر و قرار ہوں
’ندیم‘ عربی زبان سے متعلق ہے۔ اس کا بنیادی لفظ ’نَدَمَ‘ ہے۔ جس کے معنی ’اپنی کسی حرکت پر پشیمان ہونے کے ہیں‘۔ یوں ’ نَدَمَ ‘ کا رشتہ ’نادم‘ اور’ندامت‘ سے جا ملتا ہے۔ ’ندامت‘ کے معنیٰ میں ’شرمندگی، شرمساری، پشیمانی‘ حسرت اور افسوس شامل ہے۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب ’ندیم‘ کا تعلق ’ندامت‘ سے ہے تو اس کے معنی ’دوست‘ کیونکر ہوگئے؟
قصہ یوں ہے کہ ’ندیم‘ کے مجازی معنیٰ ’ہم نشین‘ کے ہیں۔ پھر’ہمنشین‘ کی رعایت سے اس کے معنیٰ میں ہمدم، مصاحب، دوست اور ساتھی داخل ہوگئے۔ عرب شاعر ابو خراش الہذلی کہتا ہے:
الم تعلمی أن تفرق قبلنا
’ندیما‘ صفاءِ مالک و عقیل
’(اے محبوب) کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہم سے پہلے ہر تکدّر سے آزاد ’دوساتھی‘، بھی (آخرکار) جدائی سے دوچار ہوئے۔‘
شعر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ’ندیم‘ کا لفظ ساتھی کے لیے برتا گیا۔ اگر اب بھی تسلی نہیں ہوئی تو ہم مزید کچھ کہنے کے بجائے ایک بڑے محقق امام راغب اصفہانی کی رائے درج کیے دیتے ہیں جن کے مطابق:
’ہم مشرب (ساتھ پینے والوں) کو ندیمان اس لیے کہا جاتا ہے کہ انجام کار وہ اپنے اس فعل پر پشیمان ہوتے ہیں۔‘
عربی میں دوست اگر ’ندیم‘ ہے تو دشمن ’غنیم‘ ہے۔ اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھے ’غنیم‘ کی رعایت سے مومن خان مومن کا ایک پھڑکتا ہوا شعر ملاحظہ کریں:
چھوڑا نہ کچھ بھی سینے میں طغیانِ اشک نے
اپنی ہی فوج ہو گئی لشکر ’غنیم‘ کا
’غنیم‘ کا لفظ ’غنم‘ سے مشتق (نکلا) ہے جس کے معنیٰ ’بکری‘ کے ہیں۔ عربوں بالخصوص بدوؤں کی کُل دولت مال مویشی ہوتے تھے جن میں عام طور پر ’بکریوں‘ کی تعداد اونٹوں کے بہ نسبت زیادہ ہوتی تھی۔ ایسے میں مال مویشی لوٹ لینے والے کو ’غنم‘ کی رعایت سے ’غنیم‘ یعنی ’لوٹنے والا‘ کہا گیا۔ عام طور پر یہ لوٹ مار دشمن کی طرف سے ہوتی تھی اس لیے ’غنیم‘ کا لفظ دشمن کا مترادف ہوگیا۔ دشمن کے تعلق سے لڑائی میں ہاتھ آنے والے دشمن کے مال کو ’مالِ غنیمت‘ کہا گیا۔
بعد میں کنایۃً ’لوٹے ہوئے اور مفت کے مال‘ کو بھی ’مالِ غنیمت‘ کہنے لگے۔
عربی میں دشمن کے لیے ایک لفظ ’عدو‘ بھی ہے۔ ’عدو‘ کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونے کے ہیں۔ اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ ’عداوت‘ بن جاتا ہے اور عدل و انصاف کے خلاف ہو تو ’عُدوان‘ کہلاتا ہے۔ اردو میں’عدو۔عداوت۔ عُدوان‘ ان تینوں الفاظ کا استعمال عام ہے۔ داغ دہلوی کا خوبصورت شعر ہے:
وہ آدمی کہاں ہے، وہ انسان ہے کہاں
جو دوست کا ہو دوست عدو کا عدو نہ ہو
ابھی ’غنیم‘ اور’عدو‘ سے نمٹے تھے کہ ’رقیب‘ سے سامنا ہوگیا۔ ’رقیب‘ سے ایک لفظ ’رقابت‘ بھی ہے، اردو میں ان دونوں الفاظ کا بالترتیب مطلب ’دشمن‘ اور ’دشمنی‘ کے ہیں۔ اس کے علاوہ رقیب کے معنی میں ’دربان، نگہبان، پاسبان اور نِگراں‘ بھی داخل ہے۔ ان میں سے لفظ ’نگہبان‘ یعنی ’نظر رکھنے والا‘ کو ذہن میں رکھیں اور لفظ ’رقیب‘ پرغور کریں آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ایک معشوقہ کے ایک سے زیادہ عاشق آپس میں رقیب کیوں ہوتے ہیں۔ بات سادہ ہے کہ جس معشوقہ پر کسی ایک کی نظر ہوتی ہے اس پر دیگر عشاق بھی نظریں گاڑے ہوتے ہیں یوں یہ سب باہم ’رقیب‘ کہلاتے ہیں۔ شنکر لال شنکر کہہ گئے ہیں:
رقیب جھوٹ کہے گا تو سچ سمجھ لو گے
کہیں گے سچ بھی اگر ہم تو اعتبار نہیں
’رقیب‘ کی اصل ’رَقُبَۃُ‘ ہے۔ جس کے معنی ’گردن‘ کے ہیں۔ پھر’رَقَبَۃَ‘ بول کرمجازاً ’انسان‘ مراد لیا جاتا ہے۔ ممکن ہے آپ کو ’رَقَبَۃَ‘ کہہ کر ’انسان‘مراد لینا عجیب معلوم ہو، مگر عربی میں’جُز‘ کہہ کر ’کُل‘ مراد لینا عام بات ہے۔ مثلاً عربی میں رأس (سر) یا ظہر (پیٹھ) بول کر سواری مراد لی جاتی ہے۔’رَقَبَۃَ‘ عرف عام میں غلام کو کہتے ہیں۔
رہی یہ بات کہ ’نگراں‘ کو ’رقیب‘ کیوں کہا جاتا ہے، تو اہل علم کے مطابق نگراں اس لیے ’رقیب‘ کہلاتا ہے کہ وہ اس شخص کی گردن پر نظر رکھتا ہے جس کی نگرانی منظور ہوتی ہے، یا وہ نگرانی کے لیے بار بار اپنی گردن اٹھا کر دیکھتا ہے۔ اس سلسلے کا ایک لفظ ’مَرْقَب‘ ہے، یہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں رقیب (نگران) بیٹھ کر چوکسی کرتا ہے۔
رقیب کو فارسی میں ’دشمن‘ کہتے ہیں۔ دشمن کی تعریف میں ’مخالف، بد خواہ، مد مقابل اورحریف‘ شامل ہیں۔ فارسی کی رعایت سے یہ لفظ اردو اور ہندی زبانوں میں بھی عام استعمال ہوتا ہے۔ میر تقی میر کا فرمانا ہے:
یار دشمن ہوگیا اس کے سبب
ہے متاعِ دوستی بھی کیا متاع
کہتے ہیں کہ لفظ ’دشمن‘ دو لفظوں ’دش‘ بہ معنی ’برا‘ اور ’من‘ بہ معنی ’دل یا خیال‘ سے مل کر بنا ہے۔ اس طرح دشمن کے معنی ہوئے بُرے دل کا یا برے خیال رکھنے والا۔ مگر ماہر لسانیات ڈاکٹر سہیل بخاری ’دشمن‘ کی اس تعریف سے اتفاق نہیں کرتے، اُن کے مطابق:
’دشمن کا بنیادی مادہ ’دش‘ نہیں ’دشم‘ ہے جس کے معنی مخالفت اور بیر کے ہیں اور’اَن‘ لاحقہ فاعلی ہے، چناں چہ دشمن کا تجزیہ یوں کرنا چاہیے تھا دشمن= دشم (بیر، مخالفت) + ان(لاحقہ فاعلی) یعنی دشمن = بیری مخالف‘۔
چوں کہ ’دشمن‘ کا تذکرہ طویل ہوگیا ہے اس لیے اس لیے دشمنی و دوستی کے تذکرے پر مشتمل ’وجد چغتائی‘ کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں: