حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں ہنگامی بنیادوں پر ہر شہر میں خوراک کے ذخائر پہنچانے کا انتظام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد حکومت ملک بھر میں لاک ڈاون (کاروبار زندگی معطل) کرنے کے خدشے کا جائزہ لے رہی ہے اور اس کے مرتب ہونے والے اثرات بالخصوص ممکنہ غذائی قلت سے نمٹنے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔
اردونیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق گزشتہ چند روز میں ملک میں موجود خوراک کے ذخائر اور ان میں ممکنہ قلت کو زیر بحث لانے کے لیے متعدد اجلاس منعقد کیے گئے جن میں تمام متعلقہ وزارتوں کے نمائندوں کے علاوہ پاکستان کی فوج کے افسران نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ٹڈی دل کے حملوں کے باعث زرعی پیداور کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ بھی لیا گیا۔
ملک میں خوراک کی وافر مقدار میں دستیابی کی ذمہ دار وفاقی وزارت کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کسی بھی غذائی بحران سے بچنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں تمام شعبے براہ راست رابطے میں ہیں۔
فوڈ سکیورٹی کے ذمہ دار شعبے کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت ملک میں بنیادی خوراک یعنی گندم اور چاول کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور لاک ڈاون کی صورت میں بھی کسی قسم کی قلت کا خدشہ نہیں۔
’اس وقت ہمارے پاس گندم کے دو ملین ٹن ذخائر موجود ہیں۔ سندھ میں گندم کی نئی فصل کی کٹائی شروع ہو چکی ہے اور 15 مارچ سے یہ خریداری کے لیے دستیاب ہے۔ ہمارے پاس اس وقت چاول کے سات ملین ٹن ذخائر موجود ہیں جب کہ ہماری زیادہ سے زیادہ ضرورت صرف دو ملین ٹن ہے۔‘
’حکومت نے ہم سے کورونا بحران سے غذائی قلت پیدا ہونے کے خدشات کے بارے میں پوچھا ہے اور ہم نے وزیراعظم آفس کو آگاہ کر دیا ہے کہ صورتحال اطمینان بخش ہے اور ہمارے پاس وافر ذخائر موجود ہیں۔‘
تاہم حکام کے مطابق کورونا بحران کے باعث پاکستان کے چاول کی برآمد متاثر ہو سکتی ہے۔
’مشرق وسطیٰ اور چین میں ہمارا چاول بڑی مقدار میں برآمد ہوتا ہے۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث اس کی برآمد رک سکتی ہے۔ تاہم مقامی طور پر اس کی قلت کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔‘
لوگوں کو اشیائے ضروریہ سستے داموں فراہم کرنے والے سرکاری یوٹیلیٹی سٹورز کے حکام کا کہنا ہے کہ کورونا کے خطرے کے پیش نظر ’پینک بائینگ‘ یعنی ہنگامی خریداری پہلے ہی شروع ہو چکی ہے، تاہم اس سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی مرتب کر لی گئی ہے۔
یوٹیلٹی سٹورز کے افسر تعلقات عامہ ساجد الرحمٰن نے اردو نیوز کو بتایا کہ سرکاری سٹورز ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
’ہم نے کورونا سے پیدا ہونے والے کسی بھی بحران سے نمٹنے کے لیے کل ایک خصوصی اجلاس میں حکمت عملی طے کر لی ہے۔ ہم پہلے ہی رمضان المبارک کے سلسلے میں اضافی اقدامات کر رہے تھے، اب اس بحران سے نمٹنے کے لیے ہم مزید خریداری کر رہے ہیں اور 15 ارب روپے کا سٹاک خریدنے کے لیے تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کے پاس عام حالات میں ہر وقت تقریبا سات ارب کا سامان موجود ہوتا ہے، جو کہ روز مرہ کی ضروریات میں کافی ہوتا ہے، لیکن ایسے ہنگامی حالات میں اضافی سامان خریدنے سے لوگوں کو اشیائے ضروریہ آسانی سے مہیا ہو جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کے پاس اپنی ٹرانسپورٹ موجود ہے اور لاک ڈاؤن کی صورت میں بھی یہ ملک کے ہر کونے میں اشیا کی ترسیل جاری رکھے گا۔
پاکستان کے چاول برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل کاشف الرحمٰن نے اردو نیوز کو بتایا کہ لاک ڈاون کی صورت میں چاول کی برآمد پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور یہ مکمل طور پر بند بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم مقامی سطح پر چاول کی دستیابی میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ برآمد بند ہونے کی صورت میں مقامی سطح پر چاول کی قیمت بہت حد تک کم ہو جائے گی۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالروف مختار کے مطابق ملک میں آٹے کی قلت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
’پاکستان کے ہرعلاقے میں آٹے کی ملیں موجود ہیں۔ اگر لاک ڈاون ہوتا بھی ہے تو اس کا آٹے کی سپلائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ اس وقت ملک میں گندم اضافی مقدار میں موجود ہے جو نئی گندم کے مارکیٹ میں آنے تک رہے گی۔‘