کورونا وائرس کے سائے میں گزرنے والی زندگی کے مناظر
پیرس سے سانتا مونیکا،ڈھاکہ سے پانامہ تک اس مہلک وائرس نے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے (فوٹو:اے ایف پی)
کورونا وائرس کے پیش نظر دنیا کی ایک تہائی آبادی اپنے گھروں میں محصور ہے۔ پیرس سے سانتا مونیکا،ڈھاکہ سے پانامہ تک اس مہلک وائرس نے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
سکول اور آفس بند پڑے ہیں، کئی کاروبار ٹھپ ہوگئے ہیں،اجتماعات پر پابندی ہے جبکہ سفری سہولیات بھی محدود کردی گئی ہیں۔ پارکس اور تفریحی مقامات کو اب علاقہ ممنوع سمجھا جارہا ہے۔
کورونا وائرس کے خوف کے سائے میں گزرنے والی یہ زندگی کیسی ہے، اے ایف پی کی تصاویر میں دنیا کے مختلف ممالک میں روزمرہ زندگی کے مناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اٹلی کے صوبے بیرگامو میں تابوت بردار میت کی تصویر لے رہا ہے تاکہ اس کے گھر والوں اور رشتے داروں کودکھائی جاسکے۔ کورونا وائرس سے ہلاک ہنے والے شخص کے اہلخانہ اس کی میت کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ انہوں نے خود کو قرنطینہ کیا ہوا ہے۔
ہانگ کانگ کا ایک مشہور گلوکار ووک لیم سینگ اپنا گٹار اٹھائے بند ریستورانوں اور بار کے سامنے سے گزر رہے ہیں جہاں کبھی لوگوں کا ایک ہجوم وہاں اکٹھا ہوتا تھا اور وہ انہیں اپنی موسیقی سے محظوظ کرتے تھے۔
ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں ایک شخص کیفے میں اکیلا بیٹھا ہے جہاں کورونا وائرس کے پیش نظر لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے۔
فلسطین میں دو افراد الاقصا مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کر رہے ہیں جو اس وقت ویران نظر آرہی ہے۔
بینکاک میں لوگ کورونا کے خوف سے اپنے اپارٹمنٹس میں بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔
ٹوکیو میں ایک کمپنی میں کام کرنے والے یوکی ساتو اب گھر سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تل ابیب میں سیکسوفون بجانے والی مشہور آرٹسٹ یردن کلیمن کورونا وائرس کی وجہ سے اپنا کنسرٹ کینسل ہوجانے کے بعد بیسل سکوئر کے رہائشیوں کے لیے چھت پر ہی پرفام کررہی ہیں۔
ارجینٹینا کے دارالحکومت بینوس ایریز میں ایک فوڈ ڈلیوری سروس کا نمائندہ اپنی سائیکل پر لوگوں کو ان کا آرڈر پہنچانے جا رہا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے لوگ ریستورانوں کا رخ نہیں کررہے بلکہ آن لائن فوڈ سروس کا استعمال کررہے ہیں۔
ریو ڈی جنیریو میں گرافٹی آرٹسٹ رفامن نے اپنے گھر کے قریب ایک عمارت پر ایک تصویر بنائی ہے جس پر 'یہ گزر جائے گا' کا پیغام درج ہے۔