پینگولین میں کووڈ 19 کے شواہد ملے ہیں (فوٹو: نیچرل ریسورس ڈیفنس کونسل)
ایک جدید سائنسی تحقیق کے مطابق اس بات کا امکان پایا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس کی انسانوں میں منتقلی پینگولین (جس کو پاکستان میں چیونٹی خور جانور کے طور پر جانا جاتا ہے) کے ذریعے ہوئی ہو گی۔
مقبول بین الاقوامی جریدے ’نیچر‘ میں حال ہی میں چھپنے والے ایک مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پینگولین میں کووڈ 19 نما وائرس کے شواہد ملے ہیں۔
دودھ پلانے والا جانور پینگولین اس وقت معدومیت کا شکار ہے اور چین میں خاصا مقبول ہے کیونکہ اس کی جلد پر موجود خاص قسم کے سکیلز (کھپرے یا کانٹے) وہاں بہت سی ادویات میں استعمال ہوتے ہیں اور اس کے گوشت کو بہت لذیذ سمجھا جاتا ہے۔
لیکن اس جانور کے بارے میں پاکستان میں عجیب و غریب قسم کی توہمات پائی جاتی ہیں جو ہر 20 کلومیٹر بعد مختلف علاقوں میں مختلف تصور اختیار کر جاتی ہیں۔
پاکستان وائلڈ لائف فاونڈیشن، جس نے پینگولین پر تحقیق اور اس کے تحفظ کے لیے مارچ 2019 میں پاکستان وائلڈ لائف کنزرویشن فاونڈیشن کے ساتھ ایک مشترکہ مہم شروع کی تھی، کے مطابق اس جانور کو پاکستان میں عمومی طور پر ایک ’منحوس جانور‘ قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان وائلڈ لائف فاونڈیشن کے نائب صدر صفوان شہاب جو پینگولین پر گذشتہ کئی سالوں سے تحقیق کر رہے ہیں نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان کے ہر علاقے میں اس جانور کے بارے میں الگ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
’یہ ایک عام تاثر ہے کہ یہ آپ کے سامنے سے گزر جائے تو آپ پر بدقسمتی طاری ہو جائے گی اور آپ کا کام نہیں ہو گا۔‘
صفوان نے بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں پینگولین کو نومولود بچوں کا گوشت کھانے والا سمجھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ایک سال سے کم عمر بچوں کی لاشیں قبروں سے نکال کر لے جاتا ہے اور ان کو کھاتا ہے۔
خطہ پوٹھوہار میں بھی اس کو انسانی آبادی کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے، جب کہ سندھ میں اس کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ جہاں یہ پیشاب کرتا ہے، وہاں آگ لگ جاتی ہے۔
’بعض علاقوں میں اس کو مردانہ قوت میں بے پناہ اضافے کا باعث بھی سمجھا جاتا ہے۔‘
صفوان شہاب کے مطابق اس کی جلد پر لگے سکیلز (کانٹوں) کو بلوچستان میں حاملہ عورتوں کے مسائل کے حل اور کشمیر میں جانوروں کی بیماریوں سے نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بے ضرر جانور ہے جس کی خوراک دیمک اور چیونٹیاں ہیں۔ یہ دن کے اوقات میں اپنے بل میں رہتا ہے اور رات کو خوراک کے لیے نکلتا ہے۔
وائلڈ لائف فاونڈیشن کے مطابق دنیا بھر میں پینگولین کی آٹھ اقسام ہیں جن میں سے پاکستان میں صرف ایک ’انڈین پینگولن‘ پائی جاتی ہے۔
چین میں پینگولین کے گوشت اور جلد کے بے پناہ استعمال کی وجہ سے اس کی بہت زیادہ غیرقانونی سمگلنگ بھی ہوتی ہے کیونکہ پاکستان میں اس کے شکار کو قانونی تحفظ ہے۔
لیکن صفوان شہاب کے مطابق ’اس کو پاکستان میں تینوں وجوہات کے باعث شکار کیا جاتا ہے۔ اس کے منحوس ہونے کے وہم کی وجہ سے، دوائیوں میں استعمال کے تصور کی وجہ سے اور سمگل کر کے پیسے کمانے کی وجہ سے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں پینگولین کی تعداد 150 سے زیادہ نہیں ہو گی۔
’آج سے 30 سال قبل پاکستان میں تقریبا 30 ہزار پینگولین پائے جاتے تھے جو کم ہو کر 10 سال پہلے تقریباً دو ہزار رہ گئے۔ اس وقت یہ زیادہ سے زیادہ 150 ہوں گے۔‘
صفوان شہاب کا کہنا ہے کہ جن علاقوں سے پینگولین غائب ہوئے ہیں وہاں درختوں کو بہت زیادہ دیمک لگ گئی ہے جس کی وجہ سے ان کے جلد ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
’حکومت کو ان درختوں کو بچانے کے لیے ان علاقوں میں پینگولین کی افزائش اور تحفظ کے لیے کوششیں کرنی چاہیئں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں