Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلمانوں کا ہندو ہمسائے کی ارتھی کو کندھا

سب سے زیادہ مشکلات میں دیہاڑی مزدور ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
انڈیا میں کورونا وائرس کے تحت 21 دن کا لاک ڈاؤن جاری ہے جسے مبصرین انسانی المیے سے تعبیر کر رہے ہیں یہاں تک کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اس سلسلے میں عوام سے معافی بھی مانگی ہے لیکن عوام کا کہنا ہے ان کی زندگی دشوار تر ہوتی جا رہی ہے۔
سب سے زیادہ مشکلات میں دیہاڑی دار مزدور ہیں کیونکہ فیکٹریوں میں کام بند ہونے سے ان کے روزگار ختم ہو گئے ہیں۔ چھوٹی سطح پر کنٹریکٹ پر کام کروانے والے ٹھیکیدار محمد دستگیر نے فون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ان کے مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں اور وہ مزدوروں کو بٹھا کر کھلانے پر مجبور ہیں لیکن آخر وہ کتنے دنوں ایسا کر سکتے ہیں؟
ان کے تقریباً ایک درجن سے زیادہ مزدور گجرات میں ایم آر ایف کمپنی کے ایک پروجیکٹ میں بجلی کی تاریں بچھانے کا کام کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے سارے مزدور بہار سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ پھنس کر رہ گئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے سبب انہیں گھروں کو بھی نہیں بھیجا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ان حالات کا سامنا کر رہے واحد ٹھیکیدار نہیں ہیں بلکہ ملک بھر میں ان جیسے ہزاروں افراد ہیں۔
لاک ڈاؤن پورے انڈیا میں مرکزی حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے لیکن ریاستیں اپنے اپنے طور پر اس کا نفاذ کر رہی ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ پولیس کی اجارہ داری ہے۔ 
وزیراعظم مودی نے کہا ہے کہ سماجی دوری بنائیں نہ کہ جذباتی دوری لیکن ملک کے طول عرض سے انسانی المیے کی ایسی داستانیں سامنے آ رہی ہیں جو اس سے قبل سنی اور دیکھی نہیں گئیں۔ بڑے شہروں سے سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اپنے گھروں کو جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ اگر وہ گھر نہ پہنچے تو بھوک سے مر جائیں گے۔

ریاستیں اپنے اپنے اعتبار سے لاک ڈاون کا نفاذ کر رہی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

سماجی اور اخلاقی دوری کی ایک مثال ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور ملک کی اہم ترین شخصیات اس پر اپنے تاثرات کا اظہار کر رہی ہیں۔
معروف مصنف زینب سکندر نے ٹویٹ کی ہے کہ اترپردیش میں بلند شہر کے ایک شخص روی شنکر کی گذشتہ دنوں موت ہو گئی۔ لوگ کورونا کے ڈر سے ان کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے نہیں نکلے یہاں تک کہ ان کے رشتے دار بھی ان کی مدد کو نہیں آئے۔ لیکن ان کے مسلمان پڑوسیوں نے ان کی ارتھی کو کندھا دیا اور ان کی لاش کے ساتھ 'رام نام ستیہ ہے' کا نعرہ لگاتے رہے۔'
 
 
یہ واقعہ ایک طرف ہندو مسلم ہم آہنگی اور دوسری طرف لوگوں کے خوف اور سماجی دوری کا عکاس ہے۔ کانگریس کے اہم رہنما ششی تھرور نے اس ہم آہنگی کو سراہا ہے جبکہ زینب سکندر کی پوسٹ کو ٹویٹ کرتے ہوئے 'پیس اینڈ کنفلکٹ' کے پروفیسر اشوک سوائیں نے ہندوؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور لکھا ہے کہ 'فخر سے کہو کہ ہم ہندو ہیں۔'
ایک دوسری ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ روم کے پاس نیرو تھا جبکہ انڈیا کے پاس مودی ہے۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ لوگ کورونا وائرس کے بجائے مودی کے 21 دنوں کے لاک ڈاؤن سے ہلاک ہو جائیں گے۔

 

 

انڈیا بھر میں ڈاکٹروں میں بھی خوف کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ بہار کے تقریباً تمام تر علاقوں میں نجی پریکٹیشنرز نے اپنے کلینک بند کر دیے ہیں۔ پولیس کسی بھی شخص کو سڑکوں پر دیکھ کر ڈنڈے برسا رہی ہے جس کی سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔
بہار کے ضلع دربھنگہ کی ایک خاتون نے بتایا ہے کہ ربیع کی فصل تیار ہے لیکن اگر لوگ اسے کاٹنے کھیتوں میں جاتے ہیں تو پولیس انہیں بھگا دیتی ہے جبکہ ایک دو جگہ پر پولیس کے ہاتھوں فصل کو آگ لگانے کی بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔

 لوگ فصل کاٹنے کھیتوں میں جاتے ہیں تو پولیس انہیں بھگا دیتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس اور انتظامیہ کا رویہ اسی طرح رہا تو لوگ بغاوت کر دیں گے کیونکہ وہ کھیتوں میں اپنی کھڑی تیار فصل کو برباد نہیں ہونے دے سکتے۔
مغربی اترپردیش میں سہارنپور ضلعے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ مساجد تو بند کرا دی گئی ہیں لیکن دو گھنٹے کے لیے جہاں بازار کھلنے کی اجازت دی جاتی ہے وہاں اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ اس سے قبل ویسی بھیڑ کہیں نہیں دیکھی گئی۔
فون پر ان کا کہنا تھا کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کے نفاذ میں منصوبہ بندی کی کس قدر کمی ہے۔

شیئر: