کورونا: پاکستان میں ادیب اور فنکار کیا ’تخلیق‘ کر رہے ہیں؟
کورونا: پاکستان میں ادیب اور فنکار کیا ’تخلیق‘ کر رہے ہیں؟
منگل 28 اپریل 2020 7:45
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
تاریخ میں جب کبھی انسان کو زندہ رہنے میں یا زندگی جینے میں مشکلات کا سامنا ہوا، چاہے وہ عالمی جنگوں کی وجہ سے ہو، فسادات، قحط یا وباؤں کی وجہ سے، تخلیق کاروں نے ہمیشہ اعلیٰ درجے کی تخلیقات کیں۔ رواں سال بھی کورونا کی وبا نے دنیا بھر کے فنکاروں اور تخلیق کاروں کی تخلیقات کا رخ موڑ دیا۔
لاک ڈاؤن کے دوران دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستانی تخلیق کار بھی اس وقت کو ایک نئے زاوئیے سے دیکھ رہے ہیں اور اس دوران ہونے والے ان کے کام پر موجودہ حالات کے اثرات نمایاں ہیں۔
پاکستانی گلوکاروں جواد احمد، شہزاد رائے، سلمان احمد اور دیگر کئی نے کورونا پھیلنے کے ابتدائی مرحلے میں خصوصی ترانے جاری کر کے عوام کی حوصلہ افزائی کی تو عاطف اسلم نے اپنی آواز میں خصوصی اذان ریکارڈ کروائی، جو سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوئی۔
پاکستان اکادمی ادبیات نے کورونا کے حوالے سے تخلیق پانے والے ادب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے ’تخلیقات امید زیست‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا ہے جس کے تحت کورونا بیماری کے حوالے سے لکھی گئی نظمیں اور غزلیں شائع کی جا رہی ہیں۔
اب تک کورونا کے موضوع پر 600 سے زائد تخلیقات اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی، ہندکو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں شائع کی جا چکی ہیں۔
اکادمی ادبیات کے مطابق 30 اپریل تک کورونا سے متعلق شائع ہونے والی تخلیقات میں سے تین بہترین تخلیقات کو ’پاکستان امید زیست ایوارڈ‘ سے نوازا جائے گا۔
اکادمی ادبیات نے لاک ڈاون کے دوران ہی قومی اور بین الاقوامی آن لائن مشاعروں کا سلسلہ بھی شروع کیا اور یوم اقبال کے موقع پر ایک آن لائن تقریب منعقد کر کے ادبی حلقوں میں ایک نیا ٹرینڈ شروع کیا۔ جب کہ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس نے بھی آن لائن میوزک کنسرٹ منعقد کیے ہیں۔
معروف اداکار و مصور جمال شاہ نے اس صورتحال سے متاثر ہو کر شاعر بشیر بدر کا کلام ’یونہی بے سبب نہ پھرا کرو، کوئی شام گھر بھی رہا کرو‘ گایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کورونا کے بحران نے نہ صرف آرٹسٹوں بلکہ عام لوگوں کی حساسیت میں بھی اضافہ کیا ہے اور وہ خود بھی اس کیفیت سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال میں ان کا دل موسیقی کی طرف زیادہ راغب ہو رہا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ ایسے گانے بنانا چاہ رہے ہیں جو حساس دلوں کو طمانیت بخشیں۔
کراچی کے آرٹسٹ طارق اخلاق جو ’کافی‘ سے پینٹینگز بناتے ہیں، وہ لاک ڈاؤن کے دوران فطرت اور تنہائی کی اہمیت کے موضوع پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے تازہ کام میں کورونا کی وجہ سے فطرت اور انسانیت میں موجود تعلق کی از سرنو ظاہر ہونے والی شکل کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔
’اس بحران سے ہمیں احساس ہوا ہے کہ جیسے فطرت ہم سے کچھ ناراض ہے۔ یا شاید ہم نے اس کو غلط استعمال کیا ہے، ہمیں لگ رہا تھا کہ ہم اس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یہ وسائل شاید ہمارے فائدے میں ہیں، لیکن در حقیقت ہمارے اس طرزعمل نے ہمیں فائدہ پہنچانے کے بجائے بیک فائر کیا ہے۔‘
طارق اخلاق کا کہنا ہے کہ اس بحران سے تنہائی کی اہمیت سمجھنے میں بھی مدد ملی ہے۔
’تنہائی کی ہماری زندگیوں میں بہت اہمیت ہے۔ اور کورونا کی وجہ سے ہمیں ایک بار پھر اندازہ ہوا ہے کہ یہ ہمارے لیے کتنی ضروری ہے۔ تنہائی کے اس پیغام کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔‘
اکادمی ادبیات کے سلسلے ’تخلیقات امید زیست ‘ کے تحت شاعرہ عائشہ ناز نے اپنی ایک نظم ’خالی پن سے بھری ہوئی دنیا‘ میں لکھا ہے۔
خالی پن سے بھری ہوئی دنیا
ایک شے سے ڈری ہوئی دنیا
صبح ہوتے ہی جاگ اٹھتی ہے
خواہشوں پر مری ہوئی دنیا
ہاتھ تک اب ملا نہیں سکتے
اس قدر سرسری ہوئی دنیا
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں