جب کچھ سمجھ میں نہ آئے، جب چیزیں الٹی پڑنی لگیں۔جب اپنے ہی تجزیے گلے کو آنے لگیں تو پھر ایک ہی راہِ نجات باقی بچتی ہے۔ کوئی قربانی کا بکرا تلاش کرو اور اپنی جھینپ اس کے سینگوں سے باندھ کر بیابان کی طرف ہنکال دو۔
مثلاً جو بھی ہمارے ہاں برا ہو رہا ہے اس کے پیچھے یہودی ، امریکی ، قادیانی، ہندو، نصاری، ملحد، کیمونسٹ سازش ہے ۔جو کچھ بھی بھارت میں برا ہو رہا ہے اس کا سبب مسلمان دہشت گرد ہیں ۔پہلے بم پھوڑتے تھے ، خودکش حملے کرتے تھے آج کل ہر جگہ تھوک تھوک کر کورونا پھیلا رہے ہیں۔یہ تعداد میں اتنے کم ہیں کہ ہندوؤں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے چنانچہ اب انہوں نے کورونا سے اتحاد کر کے ہندوؤں کے خلاف حیاتیاتی جہاد شروع کر دیا ہے۔
اسرائیل میں جو بھی برا ہو رہا ہے اس کے زمہ دار فلسطینی ہیں اور جب اسرائیل جوابی کاروائی کرتا ہے تو انسانی حقوق کی دہائی پڑ جاتی ہے حالانکہ اسرائیل سے زیادہ امن پسند ملک تو دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں۔مشرقِ وسطی میں برے دن ایران کے سبب آئے ہوئے ہیں اور ایران کو برے دن امریکی پالیسوں کے نتیجے میں دیکھنے پڑ رہے ہیں۔امریکہ جنت ہے اگر اس میں کالے اور ہسپانوی نژاد جنوبی امریکی نہ ہوں اور دنیا جنت ہے اگر اس میں امریکہ نہ ہو۔
نہیں نہیں فساد کی جڑ دراصل چین ہے ۔وہ نہ صرف مغربی ریسرچ اور ٹیکنالوجی چراتا ہے بلکہ اسی ٹیکنالوجی سے غیر معیاری اشیا بنا کر دنیا بھر میں ڈمپ کرتا ہے ۔اب اس نے کرونا وائرس چھوڑ کر مغربی تہذیب پر آخری معاشی وار کیا ہے۔چین ہی ماحولیات کی تباہی کا زمہ دار ہے اور چین ہی جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔بالکل سرد جنگ کے زمانے کے سوویت یونین کی طرح۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد دنیا جنت ہوجاتی ، جنگیں ختم ہو جاتیں اور کیپیٹل ازم کے دریا سے دودھ کی نہریں نکلنے لگتیں مگر برا ہو چین کا جس نے سب تلپٹ کر دیا ۔جب تک چین ہے تب تک چین کہاں۔
اور پھر جب سب قربانی کے بکرے اور الزامیہ اہداف ختم ہو جائیں تو سب سے آسان ، مجرب اور سامنے کا ہدف ہے عورت۔اب وہ زمانہ تو نہیں رہا کہ دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے کنواریوں کو چرنوں میں قربان کر دیا جائے یا بارشیں نہ ہوں تو کسی کنیز کا خون دریا میں گرا دیا جائے۔مگر اس کے سینگوں سے عذابوں کےاسباب کی دھجیاں باندھنا آج بھی کتنا آسان ہے۔ اتنا آسان جیسے گھر میں سبزی نہ ہو تو پیٹ بھرنے کے لئے دروازے کے باہر لگی خودرو پالک کاٹ لی جائے۔

مجھے یاد ہے جب اکتوبر دو ہزار پانچ میں شمالی پاکستان میں شدید زلزلہ آیا اور نوے ہزار سے زائد مرد ، عورتیں ، اسکولی بچے دب کر ہلاک ہو گئے۔پورے ملک سے رضاکار ان بدقسمتوں کی امداد کے لئے لپکے۔ جب یہ رضاکار ملبہ اٹھا رہے تھے۔لاشیں نکال رہے تھے، زخمیوں کو ہنگامی اسپتالوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے اور بھوکوں کے لیے راشن جمع کر رہے تھے اور سردی سے کپکپاتے مصیبت زدگان کو کمبل تقسیم کر رہے تھے۔
عین انہی دنوں کچھ سفید پوش ویگنوں پر لاؤڈ سپیکر لگا کے کہیں سے آ گئے۔وہ پرسا دینے یا سر پے ہاتھ رکھنے یا کندھے سے لگانے کے بجائے تقریر کر رہے تھے کہ یہ زلزلہ نہیں عذاب الہی ہے۔ جب عریانی عام ہو جائے، جب عورتیں بے پردہ اور مرد بے غیرت ہو جائیں تو پھر ایسے ہی عذاب آتے ہیں۔میں سڑک کنارے کھڑا سوچ رہا تھا کہ بالا کوٹ کیا اس لیے صفحہِ ہستی سے مٹ گیا کہ وہاں نائٹ کلبس تھے اور مظفر آباد پر پہاڑ کیوں الٹ گیا ؟ ضرور وہاں ہر رات کیبرے ہوتا ہوگا۔
