Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

24 گھنٹے انٹرنیٹ کے بغیر گزار سکتے ہیں؟

اکیسویں صدی کی باسی ہونے کے ناتے اس اسائنمنٹ پر میرا پہلا ردعمل کچھ غیریقینی سا تھا۔ میں بھی اپنے بیشتر جاننے والوں کی طرح تقریباً ہر کام کے لیے انٹرنیٹ پر تکیہ کرتی ہوں اور اس کے بغیر پورا دن گزارنے کا خیال میرے لیے قطعی پرکشش نہیں۔
عرب نیوز کے لیے ہالہ تاشقندی انٹرنیٹ کی ہماری زندگیوں میں اہمیت کے حوالے سے اس مضمون میں مزید کہانی کچھ یوں بیان کرتی ہیں۔ 
صرف گوگل ہی لے لیں ’انڈے کی سفیدی کو فریز کیسے کیا جاتا ہے‘، ’سفید قمیص سے ٹماٹر کی چٹنی کیسے دھوئی جائے‘، ’سفید، سرخ پیلے پیازوں میں کیا فرق ہے‘ اور ’ سعودی عرب میں قانونی طور پر میں کون سا دفتر دیکھ سکتی ہوں؟‘
یہ میری صرف ایک گھنٹنے کی سرچ ہسٹری ہے جس میں یہ سوالات تلاش کیے گئے۔ ( ریکارڈ کے لیے، آفس امیزون پرائم ویڈیو پر دستیاب ہے۔ خوش آمدید)
صحافت کے لیے میں نے ایک قدم کو چیلنج کے طور پر لیا، اور وہ قدم تھا انٹرنیٹ کے بغیر وقت گزارنا۔ بدھ کو میں نے انٹرنیٹ کے بغیر 24 گھنٹے گزارے۔ آئیے دیکھتے ہیں یہ تجربہ کیسا رہا۔

اصول و ضوابط

جب سے رمضان شروع ہوا اور میرے سونے کے اوقات بے ترتیب ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں فجر سے اگلے روز کی فجر کے ’انٹرنیٹ روزہ‘ رکھوں گی۔ میں نے اپنے لیپ ٹاپ کا اٹرنیٹ بند کر دیا، موبائل پر وائی وائے اور ڈیٹا سروس بھی بند کر دی اور اپنے تمام دوستوں اور خاندان والوں کو بتا دیا کہ میں ایک پورا ایک روز آف لائن رہوں گی۔
وہ کال کر سکتے ہیں، تحریری پیغام بھیج سکتے ہیں لیکن وٹس ایپ، سوشل میڈیا باقی سب کچھ ممنوع رہے گا۔ میں اپنے کام اور تفریح کے لیے باقی سب کچھ کروں گی لیکن انٹرنیٹ استعمال نہیں کروں گی۔ اس لیے آج سوشل میڈیا ہو گا نہ نیٹ فلیکس، سب سے بڑھ کر کھانے کی ترکیبوں کے لیے ’گوگلنگ‘ بھی نہیں ہو گی۔

کچھ منفی باتیں

میں ’دی نینی‘ نامی ڈرامہ ایمزون پرائم پر بہت شوق سے دیکھتی رہی ہوں اور مجھے اپنے اس معمول میں خلل لانا پڑا۔
اسی طرح یہ بھول جانے کے بعد کہ خستہ بسکٹ بنانے کے لیے پانی میں کتنا سوڈا ڈالنا ہے،  کچن میں اچھی خاصی مشکل صورت حال بن گئی۔ اگلا بدمزہ سا احساس اس بات سے ہوا کہ میں نیٹ فلیکس پر فلم دیکھنے کے لیے بھائی بہنوں کا ساتھ نہیں دے پائی۔
اس صورت حال میں میں پیانو کی طرف بڑھی اور ایرک کیرمن کے گانے ’آل بائی مائی سیلف‘ میں نئے رنگ بھرنے کی کوشش کی حالانکہ میں پیانو بجا سکتی ہوں اور نہ ہی گانا گا سکتی ہوں۔
 مجھے اپنے ایک مضمون کو بھی ادھورا چھوڑنا پڑا کیونکہ تحقیق کے لیے انٹرنیٹ کی ضرورت تھی۔ اب مجھ پر کام کا کافی دباؤ تھا یعنی میں معمول کی صورت حال سے کافی دور چلی گئی تھی۔
24 گھنٹے آف لائن کے بعد جب میں نے موبائل پر ڈیٹا آن کیا تو ایسا لگا جیسے فون پر ای میلز، وٹس ایپ، فیس بک،ٹوئٹر اور انسٹاگرام نوٹیفکیشنز کی بارش ہو رہی ہے اور وہ بے تحاشا بجتا چلا گیا۔
اس دوران میں ایک ایسے شخص کی جانب سے بھیجی جانے والی انتہائی ضروری ای میل بھی مس کر چکی تھی کیونکہ ان کو میں نے اپنی اسائنمنٹ کے بارے میں آگاہ نہیں کر سکی تھی۔

مثبت نکات

کورونا وائرس کی وجہ سے بننے والی صورت حال سب کے ہی ذہنوں پر سوار ہے تاہم میڈیا کے لیے کام کرتے ہوئے اس حوالے سے آنے والی کسی بھی خبر کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔
ان باتوں سے ملنے والا صرف ایک روز کا وقفہ کافی سکون آور محسوس ہوا۔
مجھے کھانے کی تراکیب کی کتب اکٹھی کرنے کی عادت ہے لیکن جب مجھے کسی معلومات کی ضرورت ہوتی ہے تو میں گوگل کی طرف جاتی ہوں۔ اب کے شام اپنی پسند کی کچھ شیفس کی کتابوں کے اوراق پلٹتے ہوئے گزاری جن میں مشہور فرانسیسی شیف اور مصنف جارج آگسٹے سکوفیئر بھی شامل تھے۔ ان کی کتاب میں نے ایک سال سے بی زائد عرصہ قبل خریدی تھی اور اس کو پہلی مرتبہ کھولا۔
اس نے مجھے بہت متاثر کیا اور اس کی بدولت میں نے سحری کے وقت اپنے گھر والوں کے لیے بڑا زبردست فلفی آملیٹ بنائے۔

چند اہم نکات جو سامنے آئے

24 گھنٹے کے چیلنج میں میں وٹس ایپ اور سوشل میڈیا استعمال نہیں کر سکتی تھی۔
صرف تحریری پیغامات اور کالز کی اجازت تھی۔
نیٹ فلیکس آن لائن سٹریمنگ سروسز سخت سے ممنوع تھیں۔
اس چیلنج کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ پرانے دوستوں اور خاندان کے افراد سے پھر سے جڑنے میں مدد ملی۔
ایک اور خوشگواریت ان دوستوں کو کال کر کے ہوئی جن سے کبھی بات نہیں ہو پاتی تھی۔ ان کی آواز سن کر بہت اچھا محسوس ہوا۔
اس سے قبل میرے بہن بھائیوں نے مجھے مووی نانٹ سے نکال دیا۔ ہم نے ایک بورڈ کے گرد بیٹھ کر سکریبل کھیلی، جس کا مجھے ہارنے کے باوجود بہت مزہ آیا۔
کم وقت کے لیے سکرین کو دیکھتے رہنے کی وجہ سے مجھے معمول سے زیادہ اچھی نیند آئی۔
ایک مصروف صحافی کے طور پر مجھے کبھی کبھار تھوڑی نیند پسند ہے لیکن زیادہ نیند کا اپنا ہی مزہ ہے۔

اور اب فیصلہ

انٹرنیٹ سے دوری کا یہ دن ناقابل یقین حد تک آرام دہ تھا۔ میں اس کو ایک عیش کے طور پر اپناؤں گی۔ ہو سکتا ہے مہینے میں ایک یا دو بار لیکن میں یہ عمل ہر حال میں پھر بھی کروں گی۔
انٹرنیٹ پر ہمارا انحصار بری بات نہیں لیکن سوشل میڈیا اپنے آپ میں نعمت بھی ہے اور مصیبت بھی، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔
اس بات پر ایک بار پھر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر انٹرنیٹ چلا جائے تو میں کچھ نہیں کر پاؤں یا پھر بوریت سے مر جاؤں گی، ایسا بہت کچھ کرنے کے لیے موجود ہے جو آف لائن بھی کیا جا سکتا ہے۔ 
میں یہ فیصلہ کرنے جا رہی ہوں کہ مہینے کے ایک بدھ کو آف لائن دن کے طور پر گزارا کروں گی۔ اس حوالے سے ان تمام لوگوں کو آگاہ کیا جائے گا جن کے ساتھ میں کام کرتی ہوں۔ میں اپنی تمام دوستوں سے کہتی ہوں کہ میرے لیے فکرمند نہ ہوں اور دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے، لیکن انٹرنیٹ سے دوری اختیار کرنے سے قبل اگر میں اپنے پسندیدہ ڈرامے اور دو شوز نیٹ فلیکس سے ڈاؤن لوڈ کر لوں تو کسی کو بتائیے گا مت۔  

شیئر: