’آموں کے بدلے کتنی ویزا درخواستیں منظور کی جاتی ہیں؟‘
پاکستان کے آم اپنی لذت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ (تصویر : اے ایف ہی )
گرمیاں آتے ہی سوشل میڈیا پر پاکستان کے آموں کے بارے میں گفتگو کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کوئی دوستوں سے آم تحفے میں نہ ملنے پر شکوہ کرتا ہے تو کسی کو بیرون ملک پاکستانی آم مل جاتے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پاکستانی آموں اور ان کے ذائقے کے حوالے سے بحث پھر زوروں پر ہے۔ اور اس بار اس آغاز اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچین ٹرنر نے کیا جو پاکستانی آم کے دیوانے ہیں۔
برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچین ٹرنر کو پاکستانی آموں کی تصویر شئیر کرتے ہوئے مرزا غالب یاد آ گئے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے آم کی مختلف تصاویر شیئر کیں اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔
اردو میں ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے مرزا غالب کے الفاظ کا سہارا لیا اور لکھا کہ ’آموں میں بس دو خوبیاں ہونی چاہئیں، ایک میٹھے ہوں اور دوسرا بہت سارے ہوں۔‘
ٹوئٹر صارف سہیل صدیقی نے لکھا کہ ’کیا بات ہے محترم آپ نے تو مرزا غالب کے الفاظ یاد کرا کے آموں کا مزا ہی دوبالا کروا دیا‘
برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچین ٹرنر نے ٹویٹ میں پاکستانیوں کا آم کی پیٹیاں بھجوانے پر شکریہ بھی ادا کیا۔
ٹوئٹر صارف ساگر نے مزاحیہ انداز میں پوچھا ’آموں کے بدلے کتنی ویزا درخواستوں کی منظوری دیتے ہیں‘
جہاں صارفین مرزا غالب کے ذکر پر خوش ہوئے وہیں کئی نے بیرون ملک پاکستانی آم مہنگے ہونے کا بھی تذکرہ کیا۔ ٹوئٹر صارف ذی ملک نے کہا ’آپ ہماری جگہ پاکستان میں آموں کا مزہ لیں کیونکہ برطانیہ میں اس بار آم بہت مہنگے مل رہے ہیں۔‘
ٹوئٹر صارف نائلہ عمر نے لکھا کہ ’پاکستان میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ، دنیا کے بہترین آم۔‘
پاکستانی آم دنیا بھر میں میٹھے، رسیلے، خوش رنگ اور خوش ذائقہ ہونے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ اس سے قبل بیوٹی برینڈ ہدیٰ بیوٹی کو چلانے والی مونا کتن نے بھی پاکستانی آموں کو پسندیدہ قرار دیا تھا۔
پاکستان میں کاشت ہونے والے پھلوں کی پیداوار میں آم دوسرے نمبر پر آتا ہے۔
اس کی سب سے زیادہ پیداوار پنجاب کے جنوبی علاقوں میں ہوتی ہے جبکہ سندھ آم کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے۔