Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکہ کے تاریخی پہاڑ، ماضی و حال کی داستانیں

تاریخی پہاڑ مقدس شہر کی خوبصورتی اور عظمت کو ظاہر کرتے ہیں(فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب میں مکہ کے تاریخی پہاڑ اس مقدس شہر کی خوبصورتی اور عظمت کو ظاہر کرنے میں ایک دریچے کی طرح ہیں کیونکہ ان پہاڑوں کی بلندیوں سے مسجد الحرام کے تمام حصے صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ گائیڈز، فوٹو گرافروں اور تحقیق کے لیے بھی یہاں ایسے بہترین مقامات موجود ہیں جہاں سے یہ لوگ بخوبی پیغمبرِ اسلام کے دور سے آج تک کے مکہ کے واقعات کو بیان، عکس بند یا قلمبند کر سکتے ہیں۔
سعودی فوٹو جرنلسٹ عبد المحسن ڈومان نے عرب نیوز کے طارق الثقفی کو بتایا کہ میڈیا اور بین الاقوامی ایجنسیاں مکہ کے بہترین مقامات کی تصاویر حاصل کرنے کے لیے پہاڑوں پر بلند جگہوں کا استعمال کرتی ہیں خاص طور پر حج سیزن میں جب دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان حج کے لیے اس مقدس شہر میں آتے ہیں۔
سعودی محقق اور ٹور گائیڈ مہدی نافع القریشی کے مطابق 'مکہ' اس خطے کی وجود میں آنے والی قدیم ترین ارضی تشکیل میں سے ایک ہے جو گرینائٹ کے پتھروں سے اور وادیوں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں سب سے اہم وادی ابراہیم الخلیل ہے‘۔
القریشی نے کہا کہ ’مسجد الحرام کی بنیادیں ان پہاڑوں سے تعمیر کی گئی تھیں خصوصاً جبلِ کعبہ سے‘۔
انہوں نے کہا کہ ان پہاڑوں سے تاریخی کہانیاں وابستہ ہیں اور بہت سے واقعات کا ان سے براہِ راست تعلق ہے، خاص طور سے پیغمبرِ اسلام کی تاریخی حیثیت سے ان پہاڑی سلسلوں کو خاص نسبت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام نے اپنی نبوت کا اعلان صفا، جبل ابو قبیس اور جبل قعیقعان کی چوٹیوں سے کیا جن کوالاخشبین کہا جاتا ہے۔

جبل النور کے نچلے حصے میں ایک ثقافتی مرکز قائم کیا جائے گا (فوٹو: عرب نیوز)

پیغمبر اسلام نے جبل نور پر غارِ حرا میں عبادت کی اور تین دن تک ثور پر ٹھہرے۔ حضرت خدیجہ بنت خولید کو جبلِ الرحمہ کے دامن میں دفن کیا گیا۔
منصور الدجانی نے جو مکہ کی تاریخ کے محقق ہیں کہا کہ مکہ کے مشہور پہاڑوں میں سے ایک ابو قبیس تھا جو الاخشبین میں سے ایک تھا اور حدیث میں اس کا حوالہ ملتا ہے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ مسجد الحرام کے مشرق میں واقع ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ زمین پر پہلا پہاڑ تھا۔‘
اس پہاڑ سے خانہ کعبہ نظر آتا ہے اور اسے ازمنۂ جاہلیہ میں (اسلام سے پہلے کا دور جسے دورِ جاہلیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) میں الامین کہتے تھے۔
ایک اور مشہور پہاڑ جبل قعیقعان تھا جو الاخشبین میں سے ایک ہے۔ یہ جبل ہندی کے نام سے جانا جاتا تھا۔
یہ مسجد الحرام کے مغرب میں واقع  ہے اور ہتھیاروں کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہونے والی آواز کی وجہ سے اسے قعیقعان کہا جاتا تھا۔ جبل خندامہ بھی مکہ کے مشہور پہاڑوں میں سے ایک ہے اور جبلِ ابو قبیس کے عقب میں واقع ہے۔
الدجانی نے کہا کہ مکہ کے دوسرے اہم پہاڑوں میں جبل النور بھی شامل ہے جو مکہ کی چوٹی پر شمال مشرق میں واقع ہے۔
جبلِ ثور جنوب کی سمت واقع ہے اور مسجد الحرام سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

مسجد الحرام کے مغرب میں جبلِ عمر بھی ایک مشہور پہاڑ تھا (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب پیغمبر اسلام اور (ان کے ساتھی) ابو بکر صدیق نے مدینہ ہجرت کی تو دوسروں کی نظروں سے بچنے کے لیے انھوں نے اسی پہاڑ کے دامن میں قیام کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جبلِ عمر بھی ایک مشہور پہاڑ تھا۔ یہ مسجد الحرام کے مغرب میں واقع تھا اور مکہ کے دونوں مشہور علاقوں الشبیکۃ سے لے کر المسفلۃ تک پھیلا ہوا تھا۔
مشرق میں جبل النور کے سامنے کوہِ ثبیر بھی تھا۔
کہا جاتا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم کی اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی کے موقع پر قبولیتِ قربانی کے طور پر بیٹے کی جگہ جانور اترا تھا۔
الدجانی نے کہا ’ہمارے وقت میں مسلمانوں کے لیے چیزوں کو آسان بنانے کے لیے تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس میں مسجدالحرام کی توسیع بھی شامل ہے۔‘
’ جبل قعیقعان کو  تیسرے سعودی توسیعی منصوبے کی خاطر ختم کیا گیا۔ اس کے علاوہ جبل عمر کو جبل عمر پروجیکٹ نے تبدیل کیا۔ ابو قبیس کے مقام پر اب شاہی محلات موجود ہیں۔ ٹریفک جام  کو ختم کرنے کے لیے جبل کندامہ کے اندر سرنگیں قائم کی گئیں اور اس پر صحت، رہائشی اور ہوٹل کا ایک منصوبہ قائم کیا جائے گا۔
جبل النور کے نچلے حصے میں ایک ثقافتی مرکز قائم کیا جائے گا تاکہ زائرین مکہ اور غار حرا کے بارے میں معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں۔
اس مقام کی تاریخی اہمیت کے پیشِ نظر جبلِ نور کو قدرتی امتیازی مقام کے طور پر بحال کیا جائے گا۔
  • واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: