وفاقی دارالحکومت میں ایک بار پھر کچھ چینج کی خبریں گرم ہیں۔ شنید ہے کہ وفاقی کابینہ میں دوبارہ ردو بدل کا امکان ہے۔ اب یہ گزشتہ بار کی طرح میوزیکل چیئر کی طرز کی تبدیلی ہوگی جہاں صرف قلمدانوں کو آگے پیچھے کیا جائے گا یا اس بار مختلف چہرے متعارف ہوں گے؟ موجودہ تبدیلی کی تلوار غیر منتخب مشیران پر بھی گرے گی یا کچھ ناپسندیدہ منتخب پیادوں کی باری آنے کو ہے؟ اس کا فیصلہ جلد ہی قوم کے سامنے ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ تبدیلی جو دو سال قبل بلند و بانگ ارادوں اور وعدوں کے ساتھ لائی گئی تھی، ان دعووں نے خصوصا نوجوان نسل میں امید، آس اور توقعات کو جنم دیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں پہلی بار ووٹ ڈالنے والے نوجوان اور نئے ووٹرز جنہیں تحریک انصاف کا تبدیلی کا نعرہ انتخابی اکھاڑے میں لے آیا، ان لوگوں کے لیے اس تبدیلی کے وعدے کے ساتھ ہی شروع ہوا وہ انتظار جو بدلا بے چینی میں، اور اب یہ بے چینی تشویش میں بدلنے جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
ماریہ میمن کا کالم: کیا میڈیا ہی وِلن ہے؟Node ID: 459486
-
ماریہ میمن کا کالم: ہنگامی موڈ آن ہوگیا ہےNode ID: 465071
-
فردوس آپا، آپ تو روٹھ ہی گئیںNode ID: 491436
تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے کو ہیں اور تبدیلی کی طرف سے دعووں اور ارادوں سےشروع ہوئی بات اب دلاسوں، حوصلوں اور مشوروں تک پہنچ گئی ہے۔ کہیں نہ گبھرانے کا دلاسہ ہے اورکہیں دوبارہ سے نئے وننگ کمبینیشن کی کھوج کا مشورہ۔
مناسب ہوگا کہ ذرا جائزہ لیا جائے کہ تبدیلی کے فی الوقت ارادے کیا ہیں؟ کیا وہ دعوے ہوا ہو چکے ہیں اور اب باقی وقت ایسے ہی دھکوں سے گزرے گا؟ یا دوسرے ممکنہ نقطہ نظر کے مطابق امید کا دامن جلد چھوڑنا مناسب نہ ہوگا ۔ پرواز کی ناہمواری کے بعد کیا تبدیلی کا ٹیک آف ہو پائے گا، جہاز اپنی مقررہ بلندی تک پہنچ جائے اس کے کتنے امکانات ہیں؟

ان دونوں موقف میں سے کسی ایک کے سچ مان لینے سے پیشتر یہ ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ تبدیلی کے مقاصد آخر تھے کیا؟
بنیادی طور پر تبدیلی کو نظام بدلنا تھا۔ وہ نظام سیاست جس کو احتساب کی تلوار کے ذریعے صاف ہونا تھا۔ اگلے مرحلے میں اصل اقتدار کے ثمرات مقامی اور صوبائی سطح پر عوام تک پہنچنے تھے ۔ نظام انصاف اور پولیس نے عوام دوست بننا تھا۔ تبدیلی پر اعتماد سے بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی ہوا چلنی تھی اور اندرون ملک کھڑکی توڑ ٹیکس اکٹھے ہونے تھے۔ تبدیلی کو انفراسٹرکچر کچھ خاص مرغوب نہیں تھا مگر ہیومن ڈیویلپمنٹ یعنی انسانی ترقی کے ریکارڈ ٹوٹنے تھے۔
دو برس میں تبدیلی کے دامن میں الیکٹیبلز، چینی و گندم، سکینڈلز اور میوزیکل چیئرز کے علاوہ زیادہ کچھ ڈھونڈنا مشکل ہے۔ سیاست کا نظام جوں کا توں، جتنی توڑ پھوڑ اپوزیشن میں موجود ہے کچھ اتنی ہی تحریک انصاف کے اندر بھی دکھائی دے رہی ہے۔

گورننس میں اصلاحات پر اتنی کمیٹیاں ہیں کہ شاید ان کا حساب رکھنے کے لیے بھی ایک نئی کمیٹی بنانی پڑے۔ یہی حال صحت اور تعلیم کا ہے جو صوبائی مضمون ہونے کے بعد وزیراعلیٰ عثمان بزدار اورمحمود خان کے رحم وکرم پر ہیں۔ ہاں پراپرٹی اور تعمیری شعبہ پسندیدہ ٹھہرا ہے جس میں مراعات بھی ہیں اور سہولیات بھی لیکن ابھی آن گراؤنڈ وہاں بھی کچھ خاطر خواہ نظر نہیں آ رہا۔
روزمرہ گورننس میں بھلا ہو فوج کا، کرونا میں بھی ہاتھ بٹا رہے ہیں اور ٹڈی دل سے بھی برسر پیکارہیں۔ ابھی بارشوں اور سیلاب میں بھی ان کو کام آنا ہے۔
اپوزیشن کا تو خیر اپنا حال پتلا ہے، ان کے تلوں میں فی الحال کوئی خاص تیل نہیں ہے کہ وہ کچھ عملی طور پر کریں۔ اور اب تو تبدیلی کے اصلی اور سچے دعوے دار بھی کچھے کچھے نظر آتے ہیں۔
