گذشتہ ایک ماہ میں ہسپتال لائے جانے والے مریضوں میں کمی آئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں 60 فیصد تک کمی آئی ہے اور اس بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد بتدریج گھٹتی جا رہی ہے۔
تاہم کچھ حلقوں کے مطابق حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار بیماری کی اصل صورت حال نہیں بتا رہے اور متاثرہ افراد کی تعداد اس لیے کم ہو رہی ہے کیونکہ حکومت نے ٹیسٹوں کی تعداد کم کر دی ہے۔
پاکستان میں کورونا کی اصل صورت حال اور اس کے زمینی حقائق جاننے کے لیے اردو نیوز نے ملک کے چند بڑے ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اور ماہرین سے روزانہ علاج کے لیے آنے والے مریضوں کی کیفیات کے بارے میں گفتگو کی ہے۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) جہاں سنگین نوعیت کے مریض نہ صرف وفاقی دارالحکومت کے گرد و نواح بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا، کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی آتے ہیں، اور جہاں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلا آئسولیشن وارڈ تیار کیا گیا تھا، میں اس وبا کے مریضوں کی تعداد میں واضح کمی کے اشارے ملے ہیں۔
پمز ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق پمز میں روزانہ دس ہزار مریضوں کا چیک اپ کیا جاتا ہے لیکن او پی ڈیز بند ہونے سے یہ تعداد کم ہو کر 5 ہزار تک رہ گئی تھی، 'پچھلے دو ہفتوں سے ایمرجنسی میں بھی آنے والے مریضوں کی تعداد اب نصف رہ گئی ہے۔
'او پی ڈیز بند ہونے کی وجہ سے تمام مریض شعبہ ایمرجنسی سے ہی رجوع کرتے تھے اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں ہی ایسے تمام مریضوں کا چیک اپ کیا جاتا، لیکن اس وقت او پی ڈیز بند ہونے کے باوجود گذشتہ دو ہفتوں سے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں آنے والے مریضوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔'
ڈاکٹر وسیم خواجہ کے مطابق پمز ہسپتال میں اس وقت کورونا کے 40 مریض زیرعلاج ہیں۔ 'پہلے زیادہ تر لوگ فون پر مشورہ لیتے تھے ہسپتال آنے سے گریز ہی کیا جاتا تھا، معمولی علامات والے مریضوں کو ضروری ادویات اور احتیاطی تدابیر بتا دی جاتی تھیں، پہلے اگر دن میں فون پر 10 مریضوں کو مشورہ دیتے تھے اب وہ تعداد بھی کم ہو کر دن میں پانچ چھ مریضوں تک آگئی ہے۔'
لیاقت کالج آف میڈیسن کراچی کے پروفیسر اور انفیکشس ڈیزیز سپیشلسٹ ڈاکٹر رفیق خانانی نے اردو نیوز کے نامہ نگار توصیف رضی ملک کو بتایا کہ گذشتہ ایک ماہ میں ہسپتال لائے جانے والے مریضوں کی نہ صرف تعداد میں کمی آئی ہے بلکہ ایمرجنسی میں آتے وقت ان کی طبی حالت بھی اب نسبتاً بہتر ہوتی ہے۔
'جس حساب سے مریضوں کی آمد میں کمی آئی ہے، شرح اموات اس حساب سے کم نہیں ہو رہیں، لیکن جون کے مقابلے میں جولائی میں کورونا سے اموات کی تعداد میں کمی آئی ہے۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے ایمرجنسی میں جو مریض لائے جا رہے تھے ان کی حالت کافی خراب ہوتی تھی جبکہ جولائی میں ہسپتال داخل ہونے والے کورونا مریضوں کی حالت نسبتاً بہتر ہے۔
ڈاکٹر رفیق کا مزید کہنا تھا کہ لوگوں میں خود سے ٹیسٹ کروانے کا رجحان کم ہوگیا ہے، شروع میں لوگ خاصے پریشان تھے اس لیے نجی لیب سے ٹیسٹ کروا رہے تھے، مگر اب اس میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار میں ٹیسٹوں کی تعداد کچھ ہفتوں سے کم دکھائی دے رہی ہے۔
کیسز میں کمی کی وجوہات کیا ہیں؟
لاہور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم نے اردو نیوز سے گفتگو میں پاکستان میں کورونا کیسز میں کمی کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بیماری اپنی انتہا کو پہینچنے کے بعد اب بتدریج کم ہو رہی یے۔'
انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں میں جہاں گنجائش ختم ہو رہی تھی اب مریضوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے اور رش بھی کم ہوتا نظر آرہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق کورونا کیسز کم ہونے کی بیشتر وجوہات ہو سکتی ہیں۔ 'لوگوں میں آگاہی بھی کافی حد تک آگئی ہے، کسی حد تک احتیاط بھی کی جا رہی ہے ، اور کچھ ٹیسٹوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے لیکن اس کے باوجود ہسپتالوں میں رش کی کمی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب وبا کے پھیلاؤ کی رفتار میں کمی ضرور آئی ہے۔'
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے بیماری میں کمی آنے کے باوجود خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں ایک بار پھر کورونا کا حملہ ہو سکتا ہے۔ 'کیسز میں کمی آئی ہے لیکن وائرس دوبارہ اس تیز رفتاری کے ساتھ بھی پھیل سکتا ہے اس لیے ہمیں احتیاطی تدابیر اسی طرح اپنائی رکھنی چاہییں۔'
پاکستان کے ایک بڑے فلاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کے صوبائی نائب صدر فدا محمد خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ جون کے مقابلے جولائی میں عوام میں بیماری کی وجہ سے خوف میں کمی آئی ہے۔ 'اب لوگوں نے اس بیماری کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔'
'میں خود بھی کورونا وائرس کا شکار ہو چکا ہوں اور وبا کے دنوں میں لوگ ہم سے رابطہ کرتے تھے اور اپنی علامات کا بتاتے تھے، لیکن وہ ٹیسٹ نہیں کرواتے تھے کیونکہ ایک خوف تھا کہ کہیں پولیس پکڑ کر نہ لے جائے لیکن اب ان افراد میں بھی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے جو ہم سے رابطہ کرتے ہیں اور مشورہ یا مدد مانگتے ہیں۔'
'لوگ اب خود کو گھروں میں قرنطینہ کر لیتے ہیں اور جب علامات ختم ہو جاتی ہیں تو خود ہی قرنطینہ سے باہر آجاتے ہیں۔'
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں