کشمیر:حکومت کا 5 اگست کو ’یوم استحصال‘قرار دینے کا فیصلہ
کشمیر:حکومت کا 5 اگست کو ’یوم استحصال‘قرار دینے کا فیصلہ
بدھ 29 جولائی 2020 19:33
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا سال مکمل ہونے پر حکومت نے پانچ اگست کو یوم استحصال قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ’غاصبانہ انڈین قبضے‘ کی مذمت کی جا سکی۔
یہ بات وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے اسلام آباد میں ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ کے زیراہتمام ایک مزاکرے سے خطاب میں بتائی۔ بین الاقوامی میڈیا اور اسلام آباد میں تعینات سفارت کاروں سے خطاب میں معید یوسف نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے تناظر میں دیکھے ورنہ نیوکلیئر ماحول میں ایک ابلتا ہوا لاوا ہے۔
’ہم پانچ اگست کو ’یوم استحصال‘ قرار دے رہے ہیں میں دہرا رہا ہوں ’یوم استحصال‘ جس کا انگریزی میں مطلب ایکسپلائٹیشن ہے یا جبری ایکسپلائٹیشن ہے ۔ اگر آپ اس دن کو یاد کرنا چاہتے ہیں تو یہ وہ دن ہے جس دن کشمیر کا محاصرہ ہوا۔ یہ وہ دن ہے جس دن فوجی قبضے کو سال مکمل ہو جائے گا۔ اور یہ غاصبانہ قبضہ ہے جس کا مطلب ہے کسی کی جائیداد، علاقہ کو طاقت کے زور پر حاصل کرنا ۔جس میں کسی کی جگہ کو ہڑپ لیا جاتا ہے۔ تو اس دن کا نام ہم نے یوم استحصال رکھا ہے یہ مذمت کا دن ہے جس دن فوجی قبضے کو سال مکمل ہو جائے گا۔‘
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پانچ اگست کو وزیراعظم قوم سے خطاب کریں گے اور کشمیریوں سے یک جہتی کے لیے واک کا اہتمام بھی کیا جائے گا جبکہ ملک بھر میں بھی سرگرمیاں کی جائیں گی۔
ایک سوال پر کہ کیا اس طرح کی سرگرمیوں سے کوئی فرق پڑے گا ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کوششوں سے معاملہ دنیا کے نوٹس میں آتا ہے اور یہ پاکستان کی کاوشیں ہی ہیں جو انڈیا کو کشمیریوں کی مکمل نسل کشی سے باز رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا انڈیا پاکستان میں تشدد کے واقعات میں ملوث ہے تاہم بلوچستان سے پکڑے گئے مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کے معاملے پر اردو نیوز کے سوال پر انہوں نے تبصرے سے انکار کر دیا۔
’اس پر میں کوئی بھی تبصرہ نہیں کروں گا یہ ایک قانونی معاملہ ہے۔ آپ کو پتا ہے ہماری عدالتیں بھی اس میں شامل ہیں جو پراسس ہے اس کو فالو کیا جارہا ہے۔ یہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی گیا ہے ۔ پاکستان قانون کے ساتھ ہے تو جو بھی قوانین ہیں جو قانون کا تقاضا ہے وہ پورا ہو گا اور اس کے علاوہ کوئی چیز ہم نہیں کریں گے مگر یہ مناسب نہیں کہ میں اس پر کوئی تبصرہ کروں۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کشمیر کے معاملے پر جو کوششیں کی جا رہی ہیں اس پر وہ مطمئن ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو اور زیادہ کوشش کرنی ہے کیونکہ ہدف واضح ہے ۔ ’ہدف کیا ہے؟ پانچ اگست واپس ہو گا اور کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت ملے گا تب تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اس لیے جو کوئی جو کچھ کر سکتا ہے اپنا حصہ ڈال سکتا ہے ہماری امید بھی ہے ہمارا مطالبہ بھی ہے اور ہماری درخواست بھی ہے کہ وہ کریں اور ہمارے مسلمان بھائی ہیں تو وہ کیوں نہیں کریں گے۔‘
’لوگ کہتے ہیں کہ وہاں (انڈیا میں) سرمایہ کاری ہے وہ سب ٹھیک ہے لیکن جس نہج پر یہ معاملہ پہنچ گیا ہے جموں اور کشمیر پر غیر قانونی قبضے کا اور انڈیا کی وہاں کاروائیوں کا تو کوئی انسان آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ یہ ایک آنے والا بحران ہے۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی شک نہیں کہ انڈیا کشمیر کی خصوصی حثیت واپس بحال کرے گا تاہم انہیں ڈر ہے کہ ایسا بہت زیادہ تشدد کے بعد اور کسی بحران کے بعد نہ ہو۔