Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ووٹ عمران خان کو دیا لیکن اورنج لائن ٹرین کا اپنا ہی مزہ ہے‘

اور پھر لاہور نے وہ دن بھی دیکھ ہی لیا جس کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا۔ لاہور کے عین وسط میں پاکستان کی سب سے پہلی میٹرو ٹرین چلا دی گئی ہے۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ لاہور کی میٹرو دنیا کے دیگر جدید شہروں میں چلنے والی ایسی سروس سے کتنی مختلف ہے میں نے بھی ٹرین کے پہلے دن کے سفر کے لیے اسی جانب رخ کر لیا۔ یہ طے کرنا تھوڑا مشکل تھا کہ کس سٹیشن سے سفر کا آغاز کیا جائے۔ کئی وجوہات کی بنا پر قرعہ انارکلی سٹیشن کا نکل آیا۔
انارکلی اور جی پی او یہ وہ دو سٹیشن ہیں جو زیر زمین ہیں۔ خیال تھا کہ سٹیشن پر لوگوں کا رش ہو گا لیکن دو تین درجن سے زائد لوگ موجود نہیں تھے۔

 

ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جو لوگ سٹیشن کے اندر بھی تھے ان کے چہروں پر بھی جھجک نمایاں تھی اور کچھ اجنبیت سی تھی۔ حالانکہ لاہور شہر میں میٹرو بس جیسا جدید سفری نظام سات سال سے موجود ہے لیکن پھر بھی میٹرو بس کے پہلے دن والا ’ماحول‘ نہیں تھا۔
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس وقت کی لیڈرشپ نے شہریوں کو جدید نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے پہلا پورا دن فیسٹیول کی طرح گزارا تھا۔
 ٹی وی سکرینیں رنگین تھیں لیکن آج معاملہ ’چپکے چپکے‘ والا تھا۔ اس لیے بھی لوگ اتنے مانوس نہیں تھے۔ خیر خودکار مشین میں سو روپے کا نوٹ ڈالا تو اس نے ایک ٹکٹ کے ساتھ ساٹھ روپے واپس کر دیے۔
موبائل فون نکال کر نظر آنے والی صورت حال کو فلمانا شروع کیا تو ایک سکیورٹی گارڈ پاس آگئے اور پوچھا آپ میڈیا والے تو نہیں؟ ان کے تیور دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی منہ سے جھوٹ نکل گیا میں نے کہا کہ نہیں جی عام شہری ہوں تو انہوں نے کیمرہ چلانے کی اجازت دے دی۔
لاہور کے باسیوں کے لیے زیرزمین ٹرین کے سٹیشن سے سفر تھوڑا انوکھا تجربہ ہے۔ ایک جوڑا اپنے ایک بچے کے ساتھ سٹیشن پر نمودار ہوا۔ ان سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ کہیں نہیں بس ٹرین پر سفر کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ سٹیشن پر لمحہ با لمحہ ٹرین کے آنے کا وقت بتایا جا رہا تھا۔ ٹھیک سات منٹ کے بعد ٹرین سٹیشن پر رکی اور خود کار طریقے سے دروازے کھلے۔

پیرس کے باسیوں نے ایک صدی پہلے میٹرو ٹرین پر سفر کرنا شروع کر دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

30 سے 45 سیکنڈز کے بعد ٹرین چل پڑی تو مانوس سی آواز تھی۔ کچھ ایسا تھا جو جانا پہچانا تھا اور پھر جلد ہی یادداشت تازہ ہو گئی۔ اگر آپ نے پیرس کی زیر زمین میٹرو ٹرین کا سفر کیا ہے۔ جرمنی کے شہر بون یا کسی بھی یوروپین ملک میں یہ تجربہ کر چکے ہیں تو آپ کو لاہور کے انارکلی بازار کے نیچے چلتی میٹرو اور پیرس کی شانزے لیزے سٹریٹ کے نیچے چلتی ٹرین کی مماثلت لگے گی جو مجھے اس وقت محسوس ہوئی۔
خیال رہے کہ پیرس کے باسیوں نے ایک صدی پہلے میٹرو ٹرین پر سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔
جیسے ہی ٹرین زیر زمین ٹریک سے باہر نکلتی ہے تو ٹرین کی آواز بھی بدل جاتی ہے۔ لکشمی آتے ہی ٹرین اپنے بالائی پل کے ٹریک پر آ جاتی ہے اور ارد گرد پرانی عمارتیں ایک نئے زاویے سے دکھائی دیتی ہیں۔
ریلوے سٹیشن کے قریب بنائے گئے میٹرو سٹیشن پر اترنے کا سوچا کہ جو لوگ ٹرین سے اتر رہے ہیں ان سے ان کے خیالات معلوم کرتے ہیں۔

عملے نے ٹرین سٹیشن پر ویڈیو بنانے سے منع کیا (فوٹو: اے ایف پی)

جیسے ہی ٹرین سے نکل کر سٹیشن پر آیا تو موبائل فون سے ویڈیوز بنانا شروع کیں تو اچانک دو سوٹڈ بوٹڈ نوجوان نمودار ہوئے اور مجھے عکس بندی سے روک دیا۔
 ایک نے اپنا تعارف سٹیشن مینیجر کے طور پر کروایا، دوسرے ان کے اسسٹنٹ تھے۔ مجھے بتایا کہ آپ ویڈیو نہیں بنا سکتے۔ جب میں نے تھوڑا پوچھنے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اوپر سے آرڈر ہے نہ تو کسی کا انٹرویو کر سکتے ہیں نہ ویڈیو بنا سکتے ہیں۔
جب مینیجر نے کہا کہ آپ کو پتا نہیں کہ ’ملک دشمن عناصر سی پیک کے کتنے مخالف ہیں اور یہ سی پیک کا پراجیکٹ ہے تو سکیورٹی خدشات ہیں۔‘
مینیجر صاحب کا یہ استدلال سن کے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا میں اگلے سٹیشن پر جانے والی ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔ ٹرین کے آئی یو ای ٹی سٹیشن پر پھر اتر گیا، خیال تھا کہ ویڈیو والا معاملہ مینیجر ٹو مینیجر مختلف ہو سکتا ہے ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے۔ اگلے سٹیشن پر اترا تو چند نوجوان کھڑے تھے وہ صبح یونیورسٹی بھی ٹرین سے آئے تھے اور اب واپس جا رہے تھے۔

’ووٹ تو عمران خان کو دیا تھا لیکن اورنج لائن ٹرین کا اپنا ہی مزہ ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ایک نوجوان کا انٹرویو ابھی شروع ہی کیا تھا کہ ویسی ہی صورت حال کا سامنا پھر کرنا پڑا۔ اب کی بار روکنے والے کے چہرے پر وحشت زیادہ تھی۔
فوری کیمرہ بند کیا اور انہی نوجوانوں سے گپ شپ شروع کر دی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ تینوں نوجوان تحریک انصاف کے ووٹر تھے۔ جب میں نے مذاق میں پوچھا کہ ٹرین میں سفر کر کے کیسا لگا تو ایک نوجوان یک لخت بولا کہ ’ووٹ تو عمران خان کو دیا تھا لیکن اورنج لائن ٹرین کا اپنا ہی مزہ ہے۔‘
سب نوجوان قہقہ لگا کر ہنسنے لگے۔ ٹرین آئی اور میں نے واپس انار کلی کی راہ لی۔

شیئر: