پاکستان نے گذشتہ ہفتے ٹک ٹاک انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد ویڈیو شیئرنگ سروس کو اس شرط پر بحال کیا ہے کہ اس کے ذریعے فحش اور غیر اخلاقی مواد نشر نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ کیسے طے کیا جائے گا کہ کون سا مواد غیر اخلاقی یا فحش ہے، اس حوالے سے ابھی تک واضح قواعد و ضوابط نہیں بنائے گئے ہیں۔
اس معاملے پر سینیٹ کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمیٹی نے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی ہے جو مشہور ٹک ٹاکرز سے رابطہ کر کے انہیں محفوظ مواد سے متعلق تربیت دے گی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کمیٹی کے کنونیئر میاں عتیق کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک ویڈیوز کا مواد بہتر اور غیرمتنازع بنانے کے لیے ہم ایک ٹک ٹاکرز کلب بنائیں گے ایک ملین سے زیادہ فالوورز والے ٹک ٹاکرز اس کے ممبر ہوں گے۔
مزید پڑھیں
-
’ٹک ٹاک غیر اسلامی ہے، پابندی لگائی جائے‘Node ID: 428486
-
جو ٹک ٹاک سٹارز بن چکے ہیں وہ اب کیا کریں گے؟Node ID: 510136
-
پاکستان میں ٹک ٹاک پر پابندی ختمNode ID: 512106
انہوں نے بتایا کہ کمیٹی میں ان کے ساتھ چیئرمین پی ٹی اے، سیکرٹری وزارت آئی ٹی اور ایف آئی اے کے سائبر کرام ونگ کے ڈائریکٹر بھی شامل ہوں گے۔
’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سوشل میڈیا یوزرز کو تعلیم دیں اور تربیت کریں کہ ایسا مواد بنائیں جو لوگوں کے لیے معلوماتی ہو، تفریحی ہو تاہم وہ مواد کسی شخص یا پارٹی کے خلاف نہ ہو اور خاص طور پر فوج اور عدلیہ کے خلاف نہ ہو۔ ‘
میاں عتیق کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں بھی ہے کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور افواج پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں ہو سکتی تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کا دل کرتا ہے کچھ بھی (مواد ) بنا دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ صارفین کو ریاستی اداروں، مذہب سے متعلق ویڈیوز نہ بنانے کی تربیت دیں گے اور کسی ریاستی ادارے یا شخصیات کے خلاف مواد والا اکاؤنٹ اب نہیں چلے گا۔
غیر اخلاقی مواد کی تعریف کیا ہے؟
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ترجمان خرم مہران نے بتایا کہ پی ٹی اے کا ٹک ٹاک سے مطالبہ تھا کہ وہ اپنے مواد کو مقامی ثقافت سے ہم آہنگ کرتے ہوئے پاکستان کے عوام کی حساسیت کا خیال کرے۔

’اس مقصد کے لیے ٹک ٹاک انتظامیہ سے کہا گیا کہ ماڈریشن کے لیے مقامی عملہ رکھے تاکہ وہ زبان اور پیشکش کو مقامی قوانین اور ثقافتی تقاضوں کے تناظر میں جانچ سکے۔ مقامی عملے کو پتا ہو گا کہ پاکستان میں معاشرے کی اقدار کیا ہیں اور کونسی چیزیں یہاں قابل قبول نہیں ہیں۔‘
انہوں نے قابل اعتراض مواد کو جانچنے کا ایک پیمانہ مقامی میڈیا کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو مواد پاکستان کے مین سٹریم ٹی وی پر نہیں چل سکتا وہ ظاہر ہے ٹک ٹاک پر بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے مقامی قوانین ہیں جن پر عمل درآمد کرنا ہوگا اس حوالے سے سائبر کرائم کے قانون کا سیکشن 37 واضح طور پر ایسے مواد کو منع کرتا ہے جو اسلام کی عظمت، پاکستان کی سلامتی اور عدلیہ کی آزادی اور تکریم کے منافی ہو۔
خرم مہران کے مطابق قابل اعتراض مواد کو جانچنے کا ایک پیمانہ عوامی شکایات ہیں۔ پی ٹی اے کو ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد کے حوالے سے 700 سے زائد شکایات موصول ہوئی تھیں جس کے بعد معاملے کو انتظامیہ کے ساتھ اٹھایا گیا تھا اورعارضی پابندی عائد کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک پر مواد کی نگرانی کی جا رہی ہے اور اگر مستقبل میں اس طرح کی شکایات دوبارہ آئیں تو یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ ٹک ٹاک کو پاکستان میں مستقل طور پر بند کیا جا سکتا ہے۔
