عمران خان نے کہا کہ ’ماضی میں تارکین وطن کے پاس پاکستان میں سرمایہ کاری کے موقع کم تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ پلاٹ لے لیتے تھے جن پر قبضے ہو جاتے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ لاہور میں راوی پراجیکٹ اور کراچی میں بنڈل آئی لینڈ میں تارکین وطن کے لیے مواقع ہیں، ان کی بدولت پاکستان میں سرمایہ آئے گا۔
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ قبضہ گروپ سیاستدانوں کے ایما پر کام کرتے تھے۔
اسرائیل کے حوالے سے ہونے والی چہ میگوئیوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہمارا موقف اب بھی وہی ہے جو 1948 میں قائد اعظم کا تھا۔‘
کورونا کی دوسری لہر کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ احتیاط ہی ہمیں اس سے بچا سکتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ کارخانے بند ہوں گے نہ ہی روزگار سے جڑے دوسرے ذرائع۔
ان کا کہنا تھا ’کورونا سے بچاتے بچاتے لوگوں کو بھوک سے نہیں مار سکتے۔‘
عمران خان نے عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ایس او پیز پر عمل کریں اور کہیں بھی جاتے وقت ماسک ضرور پہنیں کیونکہ یومیہ اموات 50 تک چلی گئی ہیں۔
وزیراعظم نے خدشہ ظاہرکیا کہ ’اگر ہم نے بحیثیت قوم وبا کا مقابلہ نہ کیا تو معاشی حالات بگڑ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے علما اور معاشرے کے دوسرے رائے سازوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوام کو احتیاط کرنے کا مشورہ دیں۔
اپوزیشن کے جلسوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اجتماعات سے وائرس پھیلتا ہے اس لیے حکومت کی جانب سے جلسے جلوس بند کیے گئے جبکہ اس بارے میں عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے۔
عمران خان نے ایک بار پھر باور کرایا کہ اپوزیشن جتنے بھی جلسے کر لے کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کامیاب جا رہی ہے۔
پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کروائے جس سے دنیا میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔