متعدد ماسک، ایک فیس شیلڈ اور خلابازوں کی طرح ایک حفاظتی سوٹ پہنے ہوئے، ڈاکٹر جوزف ورون اپنے کوویڈ -19 کے مریض کو چیک کر رہے ہیں اور ساتھ ہی فون پر ہاتھ لہرا رہے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ویڈیو کال کی دوسری جانب ان کے بے شمار چاہنے والے اس بات پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی مریض گلوریا گارشیا کو اُس بیماری سے بچانے میں مدد کی جس سے امریکہ میں 2 لاکھ 78 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
برطانیہ میں کورونا ویکسینیشن کا 90 سالہ خاتون مارگریٹ سے آغازNode ID: 523371
ورون ایک چھوٹے ہسپتال یونائیٹڈ میموریل کے چیف آف سٹاف ہیں۔ اس ہسپتال میں شمالی ہیوسٹن کے قریبی علاقوں میں کم آمدنی والے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ورون نے اس وقت میڈیا کی ہیڈلائنز میں جگہ بنائی جب ’تھینکس گوِننگ ڈے‘ پر ان کی کورونا کے ایک مریض کو گلے لگانے کی تصویر وائرل ہوئی۔
ڈاکٹر ورون کا کووڈ کے مریض کو گلے ملنا ہمدردی کا لمحہ تھا اور ورون کو ملنے والی اس پذیرائی پر ان کی فیملی بہت پُرجوش تھی۔
لیکن کوئی غلطی نہ کریں، ڈاکٹر تھک گئے ہیں۔
جب اے ایف پی نے ڈاکٹر ورون کے ساتھ ہسپتال کا دورہ کیا تو یہ ان کے مسلسل کام کرنے کا 260 واں دن تھا۔
یہاں تک کہ اگر وہ گھر میں ہر روز چند گھنٹے کے لیے جائیں تو اس دوران نہ ختم ہونے والی فون کالز کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ وہ رات کو ایک یا دو گھنٹے سے زیادہ نہیں سو پاتے۔
ڈاکٹر ورون کا کہنا ہے کہ ’مجھ سے مت پوچھیں کہ میں یہ کیسے کرلیتا ہوں؟‘

انہوں نے ایک ڈبہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ڈونٹس کا اس حوالے سے اہم کردار ہے۔’جو کچھ بھی وہ لاتے ہیں میں وہی کھاؤں گا کیونکہ آپ کو یہ نہیں معلوم کہ آپ دوبارہ کب کھانا کھا پائیں گے؟‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس دوران میرا وزن 35 پاؤنڈز (15 کلوگرام) بڑھ گیا ہے۔‘
صاف گو اور پریشان نظر آنے والے ڈاکٹر ورون نے میڈیا سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کا سٹاف جولائی کے مہینے میں انتہائی کم وسائل سے اپنا کام سرانجام دے رہے تھے۔
’میرا سٹاف بہت تھک گیا ہے، میری نرسز دن کے دوران چلانا شروع کر دیتی ہیں، وہ ٹُوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گی کیونکہ جتنے کیسز ہمارے سامنے آرہے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔‘
کورونا کے علاج کے لیے انتہائی نگہداشت کے وارڈز مریضوں سے بھر چکے ہیں، طبی عملہ ان مریضوں کو چیک کرتا ہے جبکہ ڈاکٹر ورون روزانہ راؤنڈز لگاتے ہیں۔

طبی عملے کے کارکنوں کے چہرے فیس شیلڈ کی تہوں کے ذریعے بمشکل دیکھے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ورون سمیت کچھ، اپنی گردنوں کے گرد اپنی بڑی تصاویر لگاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وارڈ میں تنہائی اور انسانی رابطے کا فقدان تھا جس نے وائرل تصویر میں اس شخص کے لیے ترس کھایا جس کو انہوں نے گلے لگایا تھا۔
موسم گرما کے دوران جیسے ہی ٹیکساس میں کورونا کیسز میں اضافہ ہوا تو فوج کی ایک خصوصی ٹیم نے انہیں طبی مدد فراہم کی، تاہم آرمی کی ٹیم جلد ہی روانہ ہوگئی جب کہ ورون اور ان کی ٹیم نے اپنا کام جاری رکھا۔
ڈاکٹر ورون نے امریکیوں کی جانب سے وبا پر قابو پانے میں ناکامی پر کئی بار مایوسی کا بھی اظہار کیا۔
ٹیکساس کے گورنر جارج ایبٹ ری پبلکن ہیں اور صدر ٹرمپ کے حامی ہیں، انہوں نے ریاست میں اپریل میں ایک ماہ کے لاک ڈاؤن کا حکم دیا تھا تاہم انہوں نے اس میں توسیع نہیں کی۔
