چین کی کمپنی علی بابا نے مبینہ طور پر ایک ایسا سافٹ ویئر متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے چینی صوبے سنکیانگ میں بسنے والے اویغور مسلمانوں کے چہرے کی شناخت کی جا سکتی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس سافٹ ویئر نے چین میں مسلم اقلیت کے ساتھ روا رکھے جانے والے متنازع سلوک کے بارے میں مزید سوالات اٹھائے ہیں۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق علی بابا کی ویب سائٹ پر بتایا گیا کہ کس طرح اویغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی شناخت کے لیے سوفٹ ویئر کو استعمال کرنا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’امریکی بل سنکیانگ پالیسی پر حملہ ہے‘Node ID: 446526
-
اویغور مسلمانوں کے’حقوق کی پامالی‘،چینی حکام پر پابندیاںNode ID: 491196
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علی بابا نے یہ معلومات ویب سائٹ سے ہٹا دی ہیں جنہیں امریکی ریسرچ کمپنی ’آٗئی پی وی ایم‘ نے دیکھا تھا اور اسے امریکی اخبار کے ساتھ شیئر کیا تھا۔
دوسری طرف علی بابا کلاؤڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس سافٹ ویئر کا صرف تجربہ کیا گیا تھا اور اسے تجربے کے علاوہ کہیں استعمال نہیں کیا گیا۔‘
گذشتہ ہفتے آئی پی وی ایم نے کہا تھا کہ ’چینی کمپنی ہواوے نے چہرے کی شناخت کرنے والے سوفٹ ویئر کا تجربہ کیا تھا۔ یہ سوفٹ ویئر جب کسی اویغور کی شناخت کرتا ہے تو اس کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیتا ہے۔‘
تاہم ہواوے نے بھی ان دعوؤں کی تردید کی ہے۔
عالمی سطح پر چین پر ایغور مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والے سلوک پر تنقید کی جاتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ماورائے عدالت حراستی کیمپوں کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جس میں کم از کم دس لاکھ افراد قید ہیں۔
