Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ینبوع شہر: مدینہ منورہ کا ماضی اور حال میں تجارتی دروازہ

وقت گزرنے کے ساتھ ینبوع ایک سیاحتی و صنعتی شہر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
ینبوع شہر کی تاریخ 2500 سال قدیم ہے۔ یہ بحیرہ روم اور یمن سے مصر تک تجارتی حوالے سے مشہور تھا۔ کشتیوں کی نقل وحرکت اور اپنی مشہور پراڈکٹس کے علاوہ ینبوع کو برطانوی اور عرب افواج کا مرکز ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت ملی۔
ان افواج نے پہلی عالمی جنگ میں عثمانیوں کا سامنا کیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ اب یہ ایک سیاحتی و صنعتی شہر میں تبدیل ہوگیا ہے۔
ایک زمانے تک حجاج کرام کے آنے جانے کے لیے ینبوع شہر کو اہمیت حاصل رہی اور سعودی عرب کی سب سے مشہور بندرگاہ بھی قائم رہی۔ ینبوع مدینہ منورہ کے لیے تجارتی دروازے کے طور پر بھی مشہور ہوا۔

ینبوع کی 2500 سال پرانی تاریخ

ینبوع کی شہرت ابتدائے اسلام سے جڑے واقعات سے بڑھی۔ اس کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں اسلام سب سے پہلے پہنچا۔ مدینہ منورہ میں غزوہ بواط اور غزوہ شعیرہ کے بعد 621ھ میں ایوبی سلطنت کے عہد میں ینبوع اپنی بندرگاہ کی وجہ سے مشہور ہوا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ مدینہ منورہ کی بندرگاہ میں تبدیل ہوگئی۔
ممالیک کے دور میں ینبوع مدینہ منورہ کے زائرین کے لیے ٹھکانہ رہا،اس کے ساتھ بحیرہ احمر کی تجارتی منڈی کے طورپر اس کی شہرت رہی۔ عثمانیوں کے دور میں اس کی بندرگاہ میں توسیع ہوئی۔ اس وقت اس میں اناج کے لیے جگہ بنائی گئی۔ یہ تیرہویں صدی کی ابتدا تک قائم رہا۔  یہاں کئی قافلوں کے ساتھ سامان مختلف جگہوں سے آتا اور پھر مختلف شہروں کی جانب روانہ کیا جاتا۔

ینبوع کی پرانی عمارتیں اور بندرگاہ

ینبوع شہر میں کئی قدیم عمارتیں ہیں۔ پرانا بازار اور بندرگاہ کا علاقہ اس کا قدیم حصہ ہے۔ یہ عمارتیں ایوبی سلطنت تک قائم رہیں۔ اس کے بعد جب عثمانی دور آیا جو فن تعمیر میں کافی ایڈوانس تھے، انہوں نے سرکاری سہولیات کے لیے عمارتیں اور جامع مسجد کی تعمیر کی۔
اس کے بعد شہر کے منتظمین ینبوع میں جدت لاتے رہے، بندرگاہ میں وسعت کی گئی۔ اس کے باوجود بہت سارے مقامات ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر پرانے شہر کا پتہ چلتا ہے۔ جیسے رات کا بازار۔ اسی طرح مرکزی بازار کی سڑک وغیرہ۔ اس وقت کی بندرگاہیں آب وہوا کو دیکھتے ہوئے ڈیزائن کی جاتی تھیں تاکہ ہر طرح کے حالات سے نمٹا جا سکے۔

ینبوع میں تجارتی رواج

پرانے زمانے میں ینبوع کے ساتھ الصور نامی علاقہ تھا جو اس کا مرکزی علاقہ تھا۔ وہاں تمام سرکاری دفاتر اور تجارتی وکیلوں کے ٹھکانے تھے۔ اسے بڑے تاجروں نے آباد کیا تھا۔ یہاں گودام اور اناج کے لیے مراکز بنائے گئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ینبوع میں کساد بازاری ہوئی۔ البتہ حجاج کرام کی آمدورفت کے ایام میں یہ کساد بازاری ختم ہو جاتی تھی۔
جنگ کے بعد ینبوع میں زبردست تجارتی تیزی آئی۔ گوداموں میں سامان بھرا ہوتا تھا خاص طور پر تارکول، مہندی، نمک، کھجور، گھی، شہد، بھیڑ اور اونٹوں کی کھالیں وغیرہ۔
بحری جہاز بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے تھےاور مزدور اونٹ کے ذریعہ سامان منڈی میں لے جاتے تھے۔

ینبوع کا معاشی عروج

ینبوع میں ایک بار پانی کا بحران آیا اور شہر کے تمام کنویں خشک ہوگئے۔ ماہرین نے تحقیق تو یہ بات سامنے آئی کہ شہر میں بلااجازت کھدائی کی وجہ سے ایسا ہوا۔
میونسپلٹی شہر کے قدیمی آثار کی حفاظت کرتی ہے، چاہے ینبوع البحر میں ہو یا ینبوع النخل میں۔ ایک سٹریٹجک پلان کے مطابق ہے جو شہر کو اپنی فطری شکل میں بحال کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

میونسپلٹی ینبوع النخل شہر میں جبریہ مارکیٹ میں 70 فیصد دکانوں کو ان کی پرانی شکل میں بحال کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ بازاروں میں شہریوں اور سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے شہر کے ماضی کے رنگ کو بحال کیا جا رہا ہے۔
ینبوع جو کبھی تجارت کا ایک مرکز تھا۔ اب اس کے ماضی کو بحال کر کے سیاحوں کو راغب کیا جا رہا ہے۔

شیئر: