Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

20 سے 21: ’کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے‘

سال کے آخری دن سوشل ٹائم لائنز پر الوداعی ساعتوں کے سورج کا منظر خاصا نمایاں رہا (فوٹو: ٹوئٹر)
اس بات پر تو اتفاق باقی ہے کہ جو چیز نہ رہے یا گزر جائے وہ نہ جانے کیوں اچھی اچھی سے لگتی یا اس کی یاد ستاتی ہے البتہ 2020 کی آخری ساعتوں میں اس سے متعلق تبصرہ کرنے والوں کی اکثریت کے خیال میں یہ سال مجموعی طور پر غم و پریشانی کا برس بن کر گزرا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے ’الوداع 2020‘ کے ٹرینڈ سمیت متعدد دیگر عنوانات کے ساتھ گزرے وقت کو یاد کیا تو اظہار خیال کے لیے کہیں شاعری، کہیں نثر اور کہیں تصویری میمز کا سہارا لیا گیا۔
گزرے برس کے ہاتھوں ملنے والی یادیں کریدی گئیں تو ٹائم لائنز پر پانے اور کھونے کے تذکرے غالب رہے۔
 

بلاشبہ وبائی صورتحال، لاک ڈاؤن اور دیگر مسائل نے معمولات زندگی کو شدید متاثر کیا۔ بہت سے لوگ مختلف مشکلات کا شکار ہوئے۔ یہ مشکلات و پریشانیاں اور ان سے جڑی یادوں کے ساتھ ساتھ کچھ یوزرز ڈھونڈ کر شکر اور خوشی بھرے لمحات کا ذکر تازہ کرنے میں بھی کامیاب رہے۔

یادوں کا ذکر ہوا تو شائقین کرکٹ اپنے پسندیدہ لمحات اور کھلاڑیوں کو بھول نہ سکے۔

یہ مشکل ہی ہوتا ہے کہ موضوع کوئی بھی ہو، سوشل میڈیا کے ہاتھ چڑھے اور اس میں طنز و مزاح یا میمز نہ آئیں۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو ٹائم لائنز یادوں کے اظہار کے لیے میمز سے مزین رہیں۔
 

سوشل میڈیا پر جاری گفتگو کے شرکا میں سے کچھ نے جاتے لمحوں سے ناراضگی کا اظہار کیا تو بھی میمز ہی کام آئیں۔

کسی نے گزرے برس کے بجائے نئے سال سے نئے کیا؟ کا سوال کیا اور اردگرد ہوتے شور کی وجہ جاننا چاہی تو گزرے اور آنے والے لمحوں میں موجود یکسانیت کو بیان کرتی شاعری کے ذریعے اپنی کیفیت بیان کی۔
 

ٹیلی ویژن میزبان حامد میر نے 2020 سے متعلق عام رائے جاننا چاہی تو گزر جانے والوں کا تذکرہ اور ان سے متعلق غم اور جدائی سوال بنا۔
 

تجزیہ کار رضا رومی اردو شاعری کے دبستان سے ’گزرے برس‘ کا تذکرہ نکال کر لائے تو شاعروں کی زبانی حال دل بیان کر گئے۔
 

2020 کی اختتامی اور 2021 کی ابتدائی ساعتوں کے انتظار میں کچھ سوشل میڈیا صارفین دوسروں کو یاددہانی کراتے رہے کہ ان لمحات میں دعاؤں کا انتخاب کریں۔
 

انسانی فطرت کے مطابق مشکل کے باوجود دامن امید تھامے رکھنے کے خواہشمند صارفین نے گزرے اور آنے والے برس کا تذکرہ کیا تو وبائی صورتحال میں بہتری کی خواہش کو کہیں لفظوں اور کہیں تصاویر سے بیان کیا۔

نیا سال جاتے جاتے پاکستانی صارفین کو حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی خبر سنا کر گیا تو کچھ نے اسے حکومت کی جانب سے نئے سال کے تحفے سے تعبیر کیا تو کوئی تنقید کے ذریعے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتا رہا۔

شیئر: