کردوں کے مسائل پر سرگرم سابق ایم پی بیریون اسلن کا کہنا ہے کہ فیاض اوزترک پر دو افراد کو قتل کرنے کا الزام ہے جنہوں نے ترک صدر رجب طیب اردوغان پر تنقید کی تھی۔
فیاض اوزترک کی وکیل ویرونیکا اوجیروسی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’حکام انہیں عوامی تحفظ کے لیے خطرہ سمجھ رہے تھے اور انہیں کرسمس سے قبل اطالوی سرحد پر لے جایا گیا۔ 'استغاثہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے فیاض اوزترک کے خلاف ستمبر میں تفتیش کا آغاز کیا تھا اور اس کے بعد ان پر 'غیر ملکی ریاست کی طرف سے فوجی جاسوسی' کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
جرم ثابت ہونے پر انہیں دو سال قید ہوسکتی ہے۔
ویانا کے کریمینل کورٹ نے منگل کو تصدیق کی کہ فیاض اوزترک کا ٹرائل 4 فروری کو ہوگا۔
مقامی میڈیا کے مطابق اوزترک نے تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ ’انہوں نے ترکی کی عدالت کو ایک کیس میں جھوٹا بیان دیا تھا جس کی وجہ سے استنبول میں امریکی سفارت خانے میں کام کرنے والے ایک شخص کو گذشتہ سال جون میں دہشت گردی کے الزام میں سزا سنا دی گئی تھی۔‘
ویرونیکا اوجیروسی کا کہنا تھا کہ ’چونکہ فیاض اوزترک کو مقدمے سے قبل مزید حراست میں نہیں رکھا جا سکتا تھا، حکام نے انہیں آسٹریا کی سرزمین پر رکھنے کے بجائے ملک سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا۔
انہوں نے بتایا کہ 'میرے موکل ٹھیک ہیں اور آسٹریا واپس جانا چاہیں گے۔'
فیاض اوزترک کی وکیل نے مزید کہا کہ ’انہوں نے اپنے موکل پر سے آسٹریا جانے کی پابندی عارضی طور پر ہٹانے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ اپنے ٹرائل میں موجود ہوسکیں۔‘
سابق ایم پی بیریون اسلن نے رواں ہفتے اے ایف پی کو بتایا کہ ’وہ اب تک پولیس کے تحفظ میں ہیں کیونکہ گذشتہ سال ان کو قتل کرنے کی کوششیں سامنے آئی تھیں۔‘
ترک حکام نے فیاض اوزترک سے کسی قسم کا تعلق ہونے کی تردید کی ہے۔
آسٹریا میں جاسوسی کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔ تاہم ملک میں قتل کی کوششوں جیسے واقعات کم ہی ہوئے ہیں۔