14 اگست 2019 کو جب پاکستان میں آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا تو حکومت کی جانب سے ایک نئے قانون کا اطلاق کیا گیا جس کے تحت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیتھین سے بنے پلاسٹک کے تھیلے استعمال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور ساتھ ہی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانوں کا بھی عندیہ دیا گیا۔
وفاق میں اس قانون کے اطلاق کے بعد مختصر عرصے میں تمام صوبوں میں بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گیاجس کے بعد پاکستان دنیا کے ان 128 ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا جہاں پلاسٹک سے بنے شاپنگ بیگز کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
پاکستان میں شاپنگ بیگز کے استعمال پر پابندی تو عائد کر دی گئی لیکن یہ پابندی ایک منفرد قسم کی تھی کیونکہ پابندی صرف اور صرف ان شاپنگ بیگز پر لگائی گئی جن کو خریداری کے بعد خریدی ہوئی چیز ڈال کر لے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جبکہ پیکنگ کے لیے استعمال ہونے والے پلاسٹک شاپرز اور اشیائے ضروریہ ڈال کر گرہ لگا کر بند یا پھر سیل کر دیے جانے والے شاپرز پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے پابندی کے اطلاق کے بعد کوئی متبادل پالیسی یا سدباب فراہم نہیں کیا گیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق پابندی سے قبل پاکستان میں سالانہ 55 ارب شاپنگ بیگز کا استعمال ہوتا تھا جبکہ ملک بھر میں شاپنگ بیگز بنانے کے آٹھ ہزار رجسٹرڈ کارخانے موجود تھے جن کی یومیہ پیداوار قریب 500 کلوگرام تھی۔
پلاسٹک شاپنگ بیگ پر پابندی کے بعد بائیو ڈیگریبڈل پلاسٹک بیگز متعارف ہوئے۔ اسلام آباد میں ضلعی انتظامیہ نے مختلف دکانوں پر چھاپے مارے اور جرمانے بھی کیے مگر اب دکانوں پرپلاسٹک شاپنگ بیگز کا استعمال دوبارہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔
دکاندار اور حکومتی پالیسیاں
اسلام آباد میں طویل عرصے سے مقیم ریحان جو کہ ایک کریانہ سٹور اور ہوٹل چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ لوگ ان سے سامان خریدتے ہیں اور پھر بیگ کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔ ’اگر انہیں کہو کہ نہیں ہے تو وہ چیزیں بھی واپس رکھ دیتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا ’حکومت کو پلاسٹک کے بیگز بند کرنا ہیں تو کرے مگر اس کے ساتھ ساتھ کوئی متبادل بیگز فراہم کرے۔‘
سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے ساتھ کام کرنے والی ماہر ماحولیات مریم شبیر کے بقول ’نہ صرف شاپنگ بیگ بلکہ کورونا وبا کے بعد استعمال ہونے والے ماسک، پلاسٹک کے گلوز بھی ایک بڑا چیلنج ہیں، جس پر تاحال حکومت کی پالیسی نہیں اور نہ حکمت عملی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے لوگوں کو بتایا جائے کہ روز مرہ کے استعمال کے یہ پلاسٹک بیگز پانچ سو سال تک ختم نہیں ہوتے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ماحول سمیت انسانی زندگی پر بھی اس کے منفی اثرات ہوتے ہیں، اگر اس شہر یا ملک کو پلاسٹک سے پاک کرنا ہے تو یہ سب اس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب لوگ ساتھ دیں، حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسی ترتیب دے جو آنے والی حکومتیں بھی جاری رکھ سکیں۔‘
کورونا کے بعد چھاپہ مار ٹیمیں غائب
وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ترجمان محمد سلیم کے مطابق کورونا وبا کی وجہ سے حکومتی اداروں کی نگرانی میں کمی آئی جس کے باعث پلاسٹک کے تھیلے پھر مارکیٹوں میں پھیل گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پلاسٹک بیگز کی مارکیٹ میں دستیابی ہے پاکستان میں ہر سال تقریبا ڈیڑھ سو ارب پلاسٹک بیگز بنتے ہیں اور اتنے ہی استعمال ہوتے ہیں۔
محمد سلیم نے بتایا کہ’ہم نے پلاسٹک بیگز پر پابندی کا اطلاق کرنے سے پہلے ان کے کارخانے والوں سے بھی رابطے کیے اس کے بعد پابندی عائد کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند ماہ میں اسلام آباد میں 70 فیصد پلاسٹک کے بیگز کے استعمال میں کمی ہوئی، لوگوں نے بھی پلاسٹک بیگز کا استعمال چھوڑ دیا، اسلام آباد کمشنر آفس کی جانب سے جرمانے بھی ہوئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کورونا کی وجہ سے بازار بند ہوئے تو ہم نے بھی بازاروں کے دورے چھوڑ دیے مگر اب وزارت پھر سے اس معاملے پر متحرک ہوگئی ہے۔ اب دوبارہ سے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کے بازاروں کا دورہ کریں گے اور پلاسٹک کے بیگز بیچنے والوں اور دوکانداروں پر جرمانے بھی عائد کیے جائیں گے۔‘
’کپڑے کے مہنگے بیگ‘
منائل محمود جو اسلام آباد میں انجینیئرنگ کی طالبعلم ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے آگاہی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، ان کے مطابق پاکستان میں پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی لگنے کے باوجود یہ بیگز با آسانی دستیاب ہیں جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غربت کی وجہ سے ہر کوئی کپڑے کے بیگز نہیں خرید سکتا جس کی قیمت عمومی طور پر پچاس یا سو روپے مقرر ہے۔
منائل کا کہنا ہے کہ ’پھر وہ لوگ جو سینکڑوں پلاسٹک بیگز بنانے والے کارخانوں میں کام کرتے ہیں جب یہ بند ہوجائیں گے تو وہ لوگ کہاں جائیں گے، حکومت ان بیگز پر پابندی لگائے مگر ان پہلوؤں پر غور کرکے پابندی کا اطلاق کرے تو زیادہ کار آمد ہوگا۔‘