Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مقابلے‘ میں مارے گئے بیٹے کی لاش مانگنے پر کشمیری باپ پر دہشت گردی کا مقدمہ

انڈین حکومت نے ’مقابلے‘ میں مارے جانے والوں کی لاشیں آبائی علاقوں سے دور دفن کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ فوٹو: اے پی
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’دہشت گرد‘ بیٹے کی لاش خاندان کے حوالے کرنے کے مطالبے پر پولیس نے 40 سالہ باپ پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق مشتاق وانی کا 16 سالہ بیٹا اطہر مشتاق ان تین نوجوانوں میں شامل تھا جن کی ہلاکت 30 دسمبر کو ضلع بارہ مولہ میں مبینہ طور پر فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہوئی۔
واقعہ کے بعد مسلسل بیانات میں پولیس نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مرنے والے نوجوانوں کے شدت پسندوں کے ساتھ رابطے تھے۔

 

تاہم مشتاق وانی کا عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’میں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ اگر ان کے پاس میرے بیٹے کی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کے ثبوت ہیں تو سامنے لائیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ثابت کیا جائے کہ میرا بیٹا عسکریت پسند تھا۔‘
خاندان کے افراد کے احتجاج اور کم عمر نوجوان کو بے گناہ کہنے کے باوجود مقامی انتظامیہ نے تینوں کی لاشیں اطہر مشتاق کے آبائی ضلع پلوامہ سے سو کلومیٹر دور ایک گاؤں کے قبرستان میں دفن کر دیں۔
اطہر مشتاق گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا اور ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ مشتاق وانی نے حکام سے متعدد بار درخواست کی کہ ان کے بیٹے کی لاش گاؤں کے آبائی قبرستان میں دفن کرنے کے لیے حوالے کی جائے۔
اب مقامی پولیس حکام مشتاق وانی اور ان کے چھ دیگر رشتہ داروں کے خلاف ’اشتعال پھیلانے، توڑ پھور کرنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
مشتاق وانی اور ان کے رشتہ داروں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت بھی مقدمہ درج کیا ہے جس میں عدالت سے ضمانت حاصل نہیں کی جا سکتی۔
پلوامہ کے سینیئر سپرنٹینڈنٹ پولیس اشیش کمار مشرا نے عرب نیوز کو بتایا کہ مقدمہ غیر قانونی طور پر اکھٹے ہونے اور غیرقانونی سرگرمی پر درج کیا گیا ہے۔
گزشتہ سال اپریل سے انڈیا کی حکومت نے ’مقابلوں‘ میں مارے جانے والے افراد کو آبائی علاقوں سے دور نامعلوم قبرستانوں میں دفن کرنے کی پالیسی پر عمل شروع کیا ہے جس سے مرنے والوں کے لواحقین کو آخری رسومات کی ادائیگی میں شرکت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

شیئر: