اقبال غالباً وہ پہلے بڑے شاعر تھے جنہوں نے بچوں کے موضوع پر قلم اٹھایا
ادب ڈیسک
ساکنانِ مشرق علامہ اقبال کے احسانات کے کتنے مقروض ہےں شاید اس کا صحیح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔گو کہ اس قرض کو کلی طور پر اتارنا تو ممکن نہیں لیکن جزوی طور پر اس سے عہدہ برآ یوں ہوا جا سکتا تھا کہ اقبال کے کلام کو باقاعدہ ایک مضمون کی شکل دے کر ہمارے نظام تعلیم کا حصہ بنایا جاتا مگر افسوس کہ بدقسمتی سے یہ بھی نہ ہو سکا۔سرکاری سطح پر جب یہ کام نہ ہوا تو کلام اقبال کے فروغ کی ذمہ داری چند ادبی اداروں نے سنبھال لی جن میں ایک مشہور و معروف نام عالمی اردو مرکز کا ہے جس کی ادبی خدمات کا اعتراف ملکی اور عالمی ہر سطح پر کیا جا رہا ہے۔
عالمی اردو مرکز کی ذیلی تنظیم ”مجلس اقبال“ کا اجلاس مقامی یستوران میں منعقد ہوا۔عالمی اردو مرکز کے جنرل سیکریٹری حامد اسلام خان نے نظامت کے فرائض اداکئے۔پروگرام کا آغازقاری محمد آصف کی تلاوت ِ کلام پاک سے ہوا۔ شیر افضل نے نہایت خوش الحانی سے نعت پاک پیش کی۔کلام اقبال”چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا“ پاکستان انٹرنیشنل اسکول کے طالب علم احمد زبیر نے بہت خوبصورت انداز میں پڑھا بعد ازاں مزید کلام اقبال”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“محمد نواز جنجوعہ نے پیش کیا۔ پروگرام کے کلیدی مقالے کے لئے مہمان خصوصی ڈاکٹر سعید کریم بیبانی کو دعوت دی گئی۔ ا نہوں نے ”اقبال اور اطفال“ کے زیر عنوان مقالہ پڑھا۔انہوں نے کہا کہ” اقبال غالباً وہ پہلے بڑے شاعر تھے جنہوں نے بچوں کے موضوع پر قلم اٹھایا ورنہ ان سے پہلے اس بات کا خیال شاید کسی شاعر کو نہیں آیاتھا۔بچوں سے متعلقہ نظمیں ان کے شعری مجموعے ”بانگ درا“ کے ابتدائی حصے میں شامل ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اقبال نے ان نظموں میں نہ صرف نامانوس الفاظ اور دقیق تراکیب سے گریز کیا بلکہ زبان و بیان کے پیرائے کو بھی سادہ رکھاتاکہ ان نظموں میں جو سبق پنہاں ہے وہ بآسانی بچوں کی سمجھ میں آ سکے۔دیکھا جائے تو تحریک پاکستان کے بعد انکے کلام سے سب سے زیادہ فیضیاب بچے ہی ہوئے ہیں لیکن حقیقتاً علامہ اقبال کا کلام ہر خاص وعام اور ہر چھوٹے بڑے کے لئے ہے۔وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ ان کا پیغام خصوصی طور پر قوم کے نوجوانوں اور مستقبل کے معماروں یعنی بچوں تک ضرور پہنچے تاکہ وہ خودی اور خود اعتمادی کے زیور سے آراستہ ہو کر اپنی منزل کو پانے میں کامیاب ہو سکیں:
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیںبچوں کو بال و پر دے
علامہ اقبال نے اپنی والدہ صاحبہ کی وفات پر ان کی یاد میں 86 اشعار پر مشتمل ایک طویل نظم " والدہ مرحومہ کی یاد میں " لکھی جس میں اقبال ماں کے بچھڑ جانے کے غم میں خود ایک طفل کی مانند نظر آئے۔اس نظم کا آخری شعر بے حد مقبول ہوا:
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ ¿نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اب چیئرمین مجلس اقبال عامر خورشید نے ڈاکٹر سعید کریم بیبانی کا ایک پرتحقیق مقالہ پیش کرنے پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔اس مرحلے پر انہوں نے مجلس اقبال کے سابق چیئر مین ڈاکٹر عرفان ہاشمی کا امریکہ سے ارسال کردہ مراسلہ پڑھ کر سنایا ۔آخر میں عالمی اردو مرکز کے صدر اطہر نفیس عباسی کو دعوت خطاب دی گئی۔انہوںنے مہمان خصوصی ، معزز اراکین عالمی اردو مرکز اور تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور پھر علامہ اقبال کی زمین میں اپنے اشعار بھی پیش کئے۔
٭٭٭٭٭٭