Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امریکہ پابندیاں اٹھا لے تو ایران جوابی اقدامات نہیں کرے گا‘

 ایران نے ایک بار پھر امریکہ سے تمام پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
 ایران نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے بعد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عائد کردہ تمام پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ دہرایا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جمعے کو اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’اگر امریکہ غیرمشروط اور موثر طور پر ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں ہٹا لے تو ایران فوری طور پر جوابی اقدامات سے پیچھے ہٹ جائے گا۔‘
دوسری جانب اعلیٰ یورپی اور امریکی حکام نے ایران پر زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے کو اپنے جوہری پلانٹس کے معائنے کی اجازت دینے پر عمل پیرا رہے تاکہ 2015 میں طے پانے والے معاہدے کو بچایا جا سکے۔
خبر رساں ایجنسیوں اے ایف پی، اے پی اور روئٹرز کے مطابق فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے ایران اور خطے میں سکیورٹی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمعرات کو پیرس میں ملاقات کی جبکہ امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی۔
برطانیہ کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ ’تینوں یورپی ممالک اور امریکہ نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکے رکھنے کی پالیسی پر کاربند رہنے کے عزم کا اعادہ کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ایران کبھی بھی نیوکلیئر ہتھیار نہیں بنائے گا۔‘
بیان کے مطابق وزرا نے ایران کی جانب سے یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے حالیہ اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا۔
ایران نے کہا تھا کہ جب تک امریکہ جوہری معاہدے میں شامل نہیں ہوتا تب تک اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے کو اپنے جوہری پلانٹس کا معائنہ نہیں کرنے دے گا۔
جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے خبردار کیا ہے کہ ایران آگ سے کھیل رہا ہے اور امریکہ کو معاہدے میں واپس شامل کرنے کے لیے کوششوں کو خطرے سے دو چار کر سکتا ہے۔

برطانوی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق وزرا نے ایران کی جانب سے یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے حالیہ اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا (فوٹو: جرمن وزارت خارجہ ٹوئٹر) 

ماس نے پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ہی حالیہ سالوں میں اس معاہدے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ تہران میں جو اقدامات کیے گئے ہیں اور جو شاید آئندہ کچھ دنوں میں کیے جائیں گے وہ معاون ثابت نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے امریکہ کو دوبارہ معاہدے میں لانے کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ جتنا دباؤ ڈالا جائے گا، اس مسئلے کے حل کی تلاش میں اتنی ہی زیادہ مشکل درپیش ہوگی۔‘
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ 2015 کے جوہری معاہدے کے مستقبل کے حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔ انہوں نے ایک آن لائن بریفنگ میں بتایا کہ ’امریکی حکومت ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کی پالیسی پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں جوہری معاہدے سے متعلق علیحدگی اختیار کر لی تھی اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کی تھیں۔

شیئر: