تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کرانے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے حکم نامے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
اردو نیوز کے نامہ نگار بشیر چوہدری کے مطابق جمعے کو سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے دستیاب ریکارڈ کا درست جائزہ نہیں لیا اور حلقے میں دوبارہ انتخاب کا کوئی جواز نہیں۔
مزید پڑھیں
-
’ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ، انتظامیہ و پولیس افسران کی معطلی کا حکم‘Node ID: 544151
-
ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ:’اس طرح کے فیصلے کی پہلے کوئی مثال نہیں‘Node ID: 544206
حلقے میں گزشتہ ماہ 19 فروری کو منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں کئی پولنگ سٹیشنز پر تشدد کے واقعات پیش آئے تھے جس کے بعد انتخابی نتائج روک دیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے حلقے میں پولنگ ڈے پر فائرنگ اور دو افراد کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ پولیس افسران کے خلاف انضباطی کارروائی کی ہدایت کی تھی جبکہ حلقے میں 18 مارچ کو دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ’ازسر نو الیکشن کرانے کا مطلب حلقے کے عوام کو دوبارہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا سامنا کرانا ہے، مخالفین پہلے ہی ضمنی الیکشن میں شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔‘
الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدوار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ حقائق کے برعکس ہے، اس لیے 19 فروری کے این اے 75 ڈسکہ کے انتخابی نتائج جاری کرنے کا حکم دیا جائے۔
علی اسجد ملہی نے سپریم کورٹ سے یہ استدعا بھی کی ہے کہ الیکشن کمیشن کا ضمنی الیکشن کو کالعدم قرار دے کر نیا الیکشن کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
تحریک انصاف کے امیدوار نے درخواست میں میں مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار، الیکشن کمیشن اور دیگر کو فریق بنایا ہے۔
