Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میری ساری پارٹی بھی ساتھ چھوڑ دے تو ان کے خلاف تنہا کھڑا رہوں گا‘

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ’سینیٹ الیکشن میں جو ہوا اس پر مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ بڑا اچھا الیکشن ہوا، اس سے مجھے اور صدمہ ہوا۔ اگر یہ اچھا الیکشن ہے تو برا الیکشن کیا ہوتا ہے؟‘
سنیچر کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میری ساری جماعت بھی ساتھ چھوڑ دے تو میں تنہا ان کے خلاف کھڑا رہوں گا۔‘
انہوں نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اتحادیوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔
عمران خان نے کہا کہ ’جب آپ مشکل وقت سے نکلتے ہیں تو اور مضبوط ہوجاتے ہیں۔ قوم اپنے نظریے سےپیچھے ہٹتی ہے تو مرجاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اچھا لگا کہ آپ سب کو سینیٹ الیکشن کے نتائج پر دل سے تکلیف ہوئی۔‘
وزیر اعظم نے کہا کہ ’پاکستان اس لیے نہیں بنا تھا کہ شریف اور زرداری ارب پتی بن جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن چاہتی ہے کہ جس طرح جنرل مشرف کو انہوں نے دباو میں لا کر این آر او لیا تھا اس طرح مٰں بھی ان کو این آر او دے دوں گا۔‘
انہوں نے آصف زرداری کو کرپشن کا ’مسٹر 10 پرسنٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان پر فلمیں بنی ہوئی ہیں۔
عمران خان نے ایک بار پھر نواز شریف کے حوالے سے کہا کہ وہ جھوٹ بول کر ملک سے باہر گئے۔
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن ایجنسیز سےبریفنگ لیں، پتا چلے گا کہ اس الیکشن میں کتنا پیسا چلا ہے۔ کیا میں الیکشن کمیشن کی آزادی ختم کر رہا ہوں؟‘
ان کے مطابق ’ہمارے اراکین کو فون کیے گئے، ووٹ کے بدلے دو کروڑ کی پیشکش کی گئی۔ کہا جا رہا ہے زرداری عقل مند سیاست دان ہے سارے لوگوں کو خرید رہا ہے۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’کیسز عدلیہ اور نیب میں ہیں۔ میرا ان پر کوئی کنٹرول نہیں۔ عدلیہ اور نیب کو ان مقدمات میں سزا کے لیے جو مدد چاہیے فراہم کریں گے۔‘

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اس خصوصی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

عمران خان نے کہا کہ ’مجھ پر سب سے زیادہ دباؤ منہگائی کا ہے۔ میری حکومت کی سب سےزیادہ توجہ منہگائی کم کرنے پر ہے۔‘
اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اس خصوصی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
وزیراعظم کی جانب سے اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم کو مبارک باد دی۔
ان کا  کہنا تھا کہ ’آئیے تبدیلی کی طرف چلیں، جاگیرداری سے حقیقی جمہوریت کی طرف چلیں۔‘
اسی طرح حکومت کی اتحادی جی ڈی اے کی رہنما ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جمہوریت کے تسلسل کے لیے آپ کے ساتھ ہیں۔‘
انہوں نے سینیٹ الیکشن کا تذکرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ ن اور پی پی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جماعتیں میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ کا مطالبہ کر چکی تھیں لیکن پھر پیچھے ہٹ گئیں۔
صدر مملکت کی جانب سے طلب کیا گیا اجلاس سنیچر کو دوپہر سوا بارہ بجے شروع ہوا، اجلاس شروع ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی ہدایت پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعتماد کا ووٹ لینے کی قرارداد پیش کی۔

قومی اسمبلی کے 341 ارکان پر مشتمل ایوان میں عمران خان نے 178 ووٹ حاصل کیے ہیں (فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

سپیکر قومی اسمبلی نے ارکان کو ووٹنگ کا طریقہ کار پڑھ کر سنایا۔ قومی اسمبلی کے ارکان کے لیے ایوان میں گھنٹیاں بجائی گئیں، جس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کے دروازے بند کرنے کی ہدایت کر دی۔
سپیکر نے ارکان کو کہا کہ اگر وہ وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو حکومتی لابی کے دروازے پر موجود شمار کنندگان کو اپنا نام لکھوائیں اور خود لابی میں چلے جائیں جس پر ارکان اعتماد کے ووٹ کے لیے ایک ایک کر کے لابی کی طرف چل دیے۔
کارروائی مکمل ہونے کے بعد ارکان کو ایوان میں بلا کر سیکرٹری قومی اسمبلی کی جانب سے مرتب کیے گئے نتیجے کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔
قومی اسمبلی کے 341 ارکان پر مشتمل ایوان میں عمران خان نے 178 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اعتماد کے ووٹ میں کامیابی کے لیے وزیراعظم عمران خان کو 172 ارکان کی حمایت درکار تھی۔

شیئر: