Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’لگ رہا ہے کہ عمران خان دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں‘

اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد آج ایوان میں کی جانے والی وزیر اعظم کی تقریر ماضی کی تقریروں سے قدرے مختلف تھی۔ (فوٹو: این اے ٹوئٹر)
اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کی غرض سے بلائے گئے قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد اگرچہ اس اجلاس ایک رسمی کاروائی کے طور پر ہی دیکھا جا رہا تھا لیکن دو لحاظ اس اجلاس کو اہمیت دی جا رہی تھی۔
پہلی وجہ یہ تھی کہ کم و بیش 30 سال بعد کسی وزیر اعظم کو اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی تھی۔ اس لحاظ سے یہ ایک تاریخی موقع تھا۔
دوسرا یہ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب تین دن پہلے پارٹی کے 16 ارکان نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
 
کہیں نہ کہیں یہ خدشہ موجود تھا کہ پارٹی کے ساتھ بغاوت کرنے والوں میں سے شاید کوئی کھل کر سامنے آ جائے اور عدم اعتماد کا اظہار کر دے لیکن ایسا نہ ہوا اور تین دن پہلے اپوزیشن امیدوار کی کامیابی میں کردار ادا کرنے والوں نے آج ایک بار پھر عمران خان کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈال کر انھیں خوش کر دیا۔
خصوصی اجلاس کا وقت 12 بج کر 15 منٹ رکھا گیا تھا جس کو لے کر بھی پارلیمانی راہداریوں میں چہ مگوئیاں ہوتی رہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اجلاس بلانے کے وقت کا کہیں نہ کہیں تعلق ’روحانیت‘ سے بھی ہے۔
10  بجے کے بعد ہی ارکان قومی اسمبلی، سینیٹرز اور معاونین خصوصی کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ارکان کے لیے ناشتے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ ارکان لابی میں جمع ہوتے رہے اور اس دن کو خاص بنانے کے لیے نعرے لگاتے، ویڈیوز بناتے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہے۔
وزیر اعظم بھی اجلاس سے قبل ہی پارلیمنٹ ہاوس میں اپنے چیمبر میں پہنچ چکے تھے جہاں قریبی ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد 12 بج کر آٹھ منٹ پر وہ ایوان میں داخل ہوئے۔ ان کی آمد سے چند لمحے قبل قائد حزب اختلاف اور ان کے ساتھ پہلی قطار میں رکھی چار پانچ کرسیوں کو نوٹوں کے ہار  پہنا دیے گئے۔
جماعت اسلامی کے رکن عبدالاکبر چترالی ایوان میں آئے تو حکومتی ارکان نے سمجھا کہ وہ اپوزیشن سے بغاوت کرتے ہوئے ووٹ دینے آئے اور انھیں ہاتھوں ہاتھ لے کر حکومتوں سیٹوں پر بیٹھنے کی پیشکش کی گئی۔ جو انھوں نے قبول نہیں کی۔ اسی دوران محسن داوڑ بھی اپنی نشست پر آ کر بیٹھ گئے۔
12  بج کر 15 منٹ پر اجلاس کی کاروائی شروع ہوئی تلاوت و نعت کے بعد قومی ترانہ بجا تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ترانے کے احترام میں کھڑے نہ ہوئے۔

اتحادی رہنماوں نے مبارک باد تو ضرور دی لیکن ان کی تقاریر سے یہ تاثر ملا کہ جیسے وہ ابھی ابھی حکومتی اتحاد کا حصہ بنے ہوں (فوٹو: این اے ٹوئٹر)

اس کے فوراً بعد انھوں نے وزیر اعظم پر اعتماد کی قرارداد پیش کرنا تھی تو سپیکر نے انھیں کہا کہ ’آپ بیٹھ کر بھی قرار پیش کر سکتے ہیں۔‘
تاہم انھوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کے سہارے کھڑے ہوکر قرارداد پیش کر دی۔
سپیکر نے اپنے ووٹ کا اندراج کرانے کے لیے ارکان کو لابی میں جانے کا کہا تو دروازے کے پاس بیٹھے ڈاکٹر عامر لیاقت لپکے اور ایک دو افراد کو دھکا دیتے ہوئے باہر نکل گئے۔ یوں انھوں نے سب سے پہلے وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کیا۔ جس کے بعد ارکان ایک ایک کرکے لابی میں جاتے رہے۔ چیف وہیپ عامر ڈوگر ارکان کی مانیٹرنگ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
اس دوران وزیر دفاع پرویز خٹک اپنی نشست سے اٹھے اور محسن داوڑ کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے۔ دونوں رہنما بظاہر گپ شپ میں مصروف نظر آئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر قہقہے بھی لگاتے رہے۔
عمران خان جب وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دینے کے لیے لابی کی طرف گئے تو ارکان اور گیلریوں میں پارٹی ورکرز نے وزیر اعظم عمران خان کے نعرے بلند کیے۔ جنھیں سپیکر نے نعرے لگانے سے منع کر دیا۔
اعتماد کا ووٹ دینے کی کاروائی مکمل ہوئی اور نتائج سپیکر کے سامنے پہنچے تو باضابطہ طور پر قرارداد کی کاروائی بیان کرنے سے پہلے انھوں نے جذبات میں آکر غیر رسمی اعلان کیا اور کہا کہ ’ماشاءاللہ 2018 میں عمران خان کو 176 ووٹ ملے تھے آج اڑھائی سال بعد ان کو 178 ووٹ ملے ہیں۔

عامر لیاقت نے سب سے پہلے وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار کر دیا (فوٹو: این اے ٹوئٹر)

یہ سن کر پی ٹی  آئی ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور بھرپور نعرے لگائے اور ڈیسک بجائے۔ اس دوران وزیر اعظم اتحادی جماعتوں کے پارلیمانی راہنماوں کی نشستوں پر گئے۔ ان سے ہاتھ ملا کر شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر سپیکر نے کہا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ عامر لیاقت نے فلور ملتے ساتھ ہی کہا کہ ’لگ رہا ہے کہ عمران خان دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ نعتیہ اشعار پڑھنا چاہتے ہیں جس کے بعد انھوں نے ترنم سے کچھ اشعار پڑھے۔ ان اشعار میں ایک شعر کا مصرع تھا ’مجھے رنج و الم نے گھیرا، میرے اپنوں نے منہ مجھ سے موڑا‘ جس کی ادائیگی پر کچھ ارکان مسکرائے اور کچھ نے تعجب کے ساتھ عامر لیاقت کی طرف دیکھا۔
مبارکباد دینے کے لیے تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا تو ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، جی ڈی اے کی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کو موقع فراہم کیا گیا لیکن ق لیگ کے پارلیمانی لیڈر طارق بشیر چیمہ کو دعوت نہیں دی گئی۔
اتحادی رہنماوں نے مبارک باد تو ضرور دی لیکن ان کی تقاریر سے یہ تاثر ملا کہ جیسے وہ ابھی ابھی حکومتی اتحاد کا حصہ بنے ہوں اور وزیر اعظم سے کہہ رہے ہوں کہ اس اتحاد میں شامل ہونے کے لیے جو مطالبات ان کے سامنے رکھے تھے وہ یاد ضرور رکھیے گا۔
دوسرا تاثر یہ بھی تھا کہ حکومت کی آدھی مدت گزر جانے کے باوجود کارکردگی سے عوام خوش نہیں ہے۔ اب کچھ ایسا کرنے کی ضرورت ہے کہ عوامی خدشات و تحفظات بھی دور کیے جائیں۔

اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے سینیٹ انتخابات کی شفافیت پر دوبارہ سوال اٹھایا (فوٹو: این اے ٹوئٹر)

خالد مقبول صدیقی نے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان صاحب آپ کواعتماد ملا،اب آپ کی باری ہے،اعتماد قوم کو لوٹائیں۔ آئیے تبدیلی کی طرف بڑھیں۔ اب ایوان کو بتائیں کہ تبدیلی نعرہ نہیں وعدہ ہے۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا بولیں کہ ’ وزیراعظم، قائد حزب اختلاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی عزت و توقیر کی جائے اور پارلیمنٹ کو قواعد کے تحت چلایا جائے تاکہ اس ادارے پر عوام کا اعتماد متزلزل نہ ہو۔ سینیٹ الیکشن کے اعلان کے بعد جو ماحول پیدا ہوا ہم چاہتے تھے کہ یہ الیکشن صاف شفاف ہونا چاہیے۔ اگر ایک میکنزم اس حوالے سے اختیار کیا جاتا تو ہمیں عدالتوں کا رخ نہ کرنا پڑتا نہ ہی یہ صورتحال درپیش ہوتی۔
شیخ رشید نے کہا کہ ’میں مالیشیا قسم کا وزیر نہیں ہوں۔ وزیر اعظم نے معیشت کو سنبھالا اور عالمی فورمز پر پاکستان کا مقدمہ لڑا ہے۔ بس مہنگائی اور تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔‘
عمران خان وزیر اعظم اور اپوزیشن رہنما کی حیثیت سے اس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ قومی اسمبلی میں خطاب کر چکے ہیں۔ بحیثیت اپوزیشن رہنما ان کی ایوان میں کی گئی تقاریر کو عوامی سطح پر بڑی پذیرائی بھی ملی ہے۔ پارلیمانی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا بھی خیال ہے کہ عمران خان کسی بھی سٹیج سے بہتر تقریر ایوان میں کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے فلور پر طویل ترین تقریر کرتے ہوئے اپنی پوری سیاسی جدوجہد، کامیابیوں اور عزائم کو دہرایا۔ (فوٹو: این اے ٹوئٹر)

اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد آج ایوان میں کی جانے والی وزیر اعظم کی تقریر ماضی کی تقریروں سے قدرے مختلف تھی۔
پہلی بار انھیں ایوان میں تقریر کرنے کے لیے پرسکون ماحول ملا جہاں اپوزیشن کی جانب سے ان کی تقریر میں رکاوٹ ڈالنے والا کوئی بھی نہیں تھا جس کا انھیں ہمیشہ گلا بھی ہوتا ہے اور اس کا ذکر انھوں نے آج بھی کیا۔
شاید یہی وجہ تھی انھوں نے فلور پر طویل ترین تقریر کرتے ہوئے اپنی پوری سیاسی جدوجہد، کامیابیوں اور عزائم کو دہرایا۔
اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے سینیٹ انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے بریفنگ لیں کہ سینیٹ انتخابات میں کتنا پیسہ چلا ہے۔
وزیر اعظم نے اگرچہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینا تھا لیکن پارلیمانی گیلریوں میں پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان کے وزرائے اعلی، گورنرز، سپیکر، صوبائی وزرا، سینیٹرز اور پارٹی کے دیگر رہنما بھی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے موجود تھے۔
پارلیمنٹ ہاوس کے باہر بھی 2014 کے دھرنے کی یاد تازہ تھی جہاں تحریک انصاف کے کارکنان جمع تھے۔ لیگی رہنماوں کے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہو چکی تھی۔ بڑا کنٹینر نہ سہی لیکن ٹرک اور ساونڈ سسٹم بھی موجود تھا۔
خدشہ تھا تو صرف ایک کا کہ اگر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی ہوگئی تو کہیں دھرنا نہ شروع ہوجائے۔

شیئر: