روسی زار الیگزینڈر دوم، جن کے قتل کی چھٹی کوشش کامیاب ہوئی
روسی زار الیگزینڈر دوم، جن کے قتل کی چھٹی کوشش کامیاب ہوئی
منگل 16 مارچ 2021 6:07
الیگزینڈر دوم کو پیرس میں بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی (فوٹو: العربیہ ڈاٹ نیٹ)
سنہ 13 مارچ 1881 کو روسی سلطنت شہنشاہ الیگزینڈر دوم کے قتل سے لرز اٹھی۔
الیگزینڈر دوم جو 62 سال کی عمر میں قتل ہوئے، انہوں نے 26 سال تخت پر گزارے تھے۔
کسانوں کو دی گئی آزادیوں، جسمانی سزاؤں کے خاتمے، مقامی حکومتوں کے قیام اور اشرافیہ کی مراعات میں کمی جیسی کامیابیوں کے باوجود زار روس الیگزینڈر دوم کو دارالحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں دہشت گرد تنظیم نروڈنیا والیا کے ممبرز نے گرینیڈ حملے میں قتل کر دیا۔
سنہ 13 مارچ 1881 کو ان کے قتل کی کامیاب کوشش سے قبل بھی زار روس الیگزینڈر دوم پر گذشتہ برسوں میں کئی ناکام حملے ہوئے تھے، جن میں وہ معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔
محل کے قریب حملہ
اپریل 1866 کے آغاز میں زار روس الیگزینڈر دوم سینٹ پیٹرزبرگ میں اپنے موسم گرما کے محل سے روانہ ہوئے تو ان کے اپنی بگھی میں بیٹھنے سے قبل کئی شہری محل کے قریب انہیں سیلوٹ کرنے کے لیے اکھٹے ہو گئے۔
لوگوں کے اس ہجوم میں 26 سالہ دمتری کاراکوزوف بھی شامل تھے جنہوں نے اپنا پستول نکالا اور زار روس کی طرف سیدھا کر لیا۔
خوش قسمتی سے وہاں اوسیپ کومیساروف نامی ایک کسان موجود تھے، جنہوں نے یہ منظر دیکھ لیا اور فوراً ہی دمتری کاراکوزوف کا ہاتھ اوپر کی طرف کر دیا جس سے گولی آسمان کی جانب نکل گئی۔
پولیس نے فوری طور پر دمتری کاراکوزوف کو گرفتار کر لیا اور انہیں عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی جس پر اسی سال ستمبر میں عمل درآمد کیا گیا۔
جبکہ زار روس نے اپنی جان بچانے والے کو اشرافیہ میں شامل کر لیا اور انہیں بطور انعام کافی بڑی رقم دی۔
پیرس میں حملہ
مئی 1867 میں زار الیگزینڈر دوم اپنے دونوں بیٹوں ولادیمیر اور الیگزینڈر کے ہمراہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں موجود تھے۔ یہاں وہ ایک عالمی نمائش میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
اس موقع پر فرانس کے شہنشاہ نپولین سوم اپنے روسی ہم منصب کو اپنے رتھ پر پیرس کے دورے پر لے گئے۔
اسی دوران ایک 21 سالہ پولش نوجوان جن کا نام انتون بیریزوسکی تھا شاہی رتھ کی طرف آئے اور اپنا پستول الیگزینڈر دوم کے چہرے کی طرف کر کے انہیں قتل کرنے لگے، تاہم خوش قسمتی سے جیسے ہی انتون بیریزوسکی نے ٹریگر دبایا پستول ان کے ہاتھ میں ہی پھٹ گیا اور گولی نکل کر غلطی سے گھوڑے کو لگ گئی۔
تحقیقات کے دوران اس پولش نوجوان نے اعتراف کیا کہ یہ حملہ انہوں نے اپنے آبائی وطن پولینڈ کے لیے کیا، جو اس وقت روس کا حصہ تھا۔
ایک سال میں حملے کی تین کوششیں
اپریل 1879 کے آغاز میں الیگزینڈر دوم سینٹ پیٹرز برگ میں اپنے سردیوں کے محل کے قریب اکیلے کسی سکیورٹی کے پیدل ہی دورے پر نکل پڑے۔
راستے میں انہیں الیگزینڈر سولوویف نامی ایک آدمی نے روک لیا اور ان کی طرف پستول تان لیا۔
الیگزینڈر دوم نے جیسے ہی پہلی گولی کی آواز سنی جو انہیں نشانہ بنانے میں ناکام رہی، وہ دوڑ کر حملہ آور کی طرف بڑھے۔
الیگزینڈر سولوویف نے ان پر مزید گولیاں چلائیں، تاہم یہ گولیاں انہیں نہیں لگیں۔
اسی دوران سکیورٹی گارڈز نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا اور ان کے ہاتھ سے پستول چھین لیا۔
اس کے تین دن بعد الیگزینڈر سولوویف کو سینٹ پیٹرز برگ میں عوامی سکوائر میں 70 ہزار لوگوں کے سامنے پھانسی دے دی گئی۔
اسی سال نومبر میں زار روس اپنے خاندان کے ساتھ شاہی ٹرین پر کریمیا سے دارالحکومت سینٹ پیٹرز برگ کے سفر پر روانہ ہوئے۔
نروڈنیا والیا نامی تنظیم نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور خارخوف کے قریب ٹرین ٹریکس پر بم نصب کر دیا۔
لیکن خوش قسمتی نے ایک بار پھر زار روس کا ساتھ دیا اور ایک دوسری ٹرین بم دھماکے کا نشانہ بنی۔
سنہ پانچ فروری 1880 میں سٹیپن خلٹورین نامی ایک بڑھئی نے شاہی محل میں کام کے دوران وہاں ایک کمرے میں 30 کلو سے زیادہ دھماکہ خیز مواد نصب کر دیا۔
اس دھماکہ خیز مواد کو اس وقت پھاڑنا تھا جب شہنشاہ نے اپنے ایک مہمان کے ساتھ کمرے میں رات کے کھانے کے لیے آنا تھا۔
لیکن یہاں بھی خوش نصیبی نے زار روس کا ساتھ دیا اور ان کے مہمان کی آمد میں آدھے گھنٹے کی تاخیر ہو گئی۔
اس بات سے بے خبر سٹیپن خلٹورین نے اپنے مطلوبہ وقت پر عمارت کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں 11 گارڈز ہلاک ہو گئے۔