Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایران کے تباہ کن رویے کے پیچھے خمینی کے بنیاد پرست نظریات‘

انور سادات کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے نے انہیں شدت پسندوں کا ہدف بنا دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مصر کے صدر انور سادات کو شدت پسندوں نے 1979 کی عرب اسرائیل جنگ کی یاد میں چھ اکتوبر 1981 کو ہونے والی ایک فوجی پریڈ کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
دنیا نے اس حملے کی مذمت کی تھی لیکن تہران میں اس قتل کو سراہا گیا تھا۔  
مصری تنظیم جہاد الاسلامی سے جڑے باغی آرمی افسران پر مشتمل ہٹ سکواڈ نے اس امید کے ساتھ حملہ کیا تھا کہ اس اقدام سے اسلامی بغاوت کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
مصر کے شہر اسیوط میں کچھ وقت کے لیے شورش ہوئی بھی لیکن جلد ہی اس پر قابو پا لیا گیا۔ 
عرب نیوز کے ہانی نسیرہ ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ مصر کے صدر انور سادات کی ہلاکت کے منصوبے میں ایران کا براہ راست ہاتھ نہیں تھا لیکن آیت اللہ خمینی نے جو 1979 میں شاہ ایران کی حکومت کے خاتمے کا سبب بننے والے اسلامی انقلاب کے معمار تھے، تشدد کے آغاز میں کردار ضرور ادا کیا تھا۔  
انور سادات کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے نے انہیں شدت پسندوں کا ہدف بنا دیا تھا۔ وہ ایران کی مذہبی حکومت پر اکثر برہم رہتے تھے اور خمینی کو ’سنکی آدمی‘ کہتے تھے، ان کا خیال تھا کہ وہ اسلام کی غلط نمائندگی کرتے ہیں۔  
ایران کے نئے حکمرانوں نے مصر پر فلسطینیوں کو 'دھوکا دینے' کا الزام لگایا تھا اور انور سادات پر شاہ کو پناہ دینے اور پھر ریاستی سرپرستی میں ان کی نماز جنازہ کروانے پر شدید تنقید کی تھی۔ 
سادات کے اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر آیت اللہ خمینی نے کہا تھا: ’مصری لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ اگر انہوں نے ایرانیوں ہی کی طرح سر بغاوت کی ہوتی تو وہ سازشوں کو ختم کر دیتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ مصر کے لوگوں کو اپنی حکومت سے ڈرنا نہیں چاہیے نہ ہی ان کے قوانین کی پروا کرنی چاہیے۔ ’جیسے ہمارے لوگوں نے ڈر کی زنجیریں توڑ دیں، ان (مصر کے لوگوں) کو بھی گلیاں بھر دینی چاہییں، غرور کے ہر نشان کو مٹا دینا چاہیے اور ایک قابلِ نفرین حکومت سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔‘
ایران انور سادات کے قتل پر اتنا شکر گزار تھا کہ اس نے ان کے قاتل خالد اسلامبولی کو بھی عزت دی۔ یہاں تک کہ تہران کی ایک گلی کا نام ان کے نام پر رکھ دیا تھا۔ 
لیکن کیا کیا جائے کہ لوگوں کو پُر تشدد انتہا پسندی پراکسانا، اس کا دھوم دھام سے جشن منانا اور اسے ایران سے باہر کے ملکوں میں برآمد کرنا 1979 کے انقلاب کے ڈی این کا ایک انمٹ نقش ہے۔ 
ایران کی مداخلت کی پالیسی جو درپردہ جنگ اور کیچڑ اچھالنے پر قائم ہے اور اس کی اقدار وہ ہی ہیں جو آیت اللہ خمینی کی تھیں اور آج ان کے جانشین رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کی بھی ہیں۔

ایران نے تہران کی ایک گلی کا نام انور سادات کے قاتل خالد اسلامبولی کے نام پر رکھ دیا تھا: (فائل فوٹو: اے ایف پی )

اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ایک خطبے میں آیت اللہ خمینی کا کہنا تھا کہ ’جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اپنا انقلاب ہر طرف پھیلانا ہے، اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنی سرحدیں بھی بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم مانتے ہیں کہ تمام اسلامی ممالک ہمارا ہی حصہ ہیں۔ ہم ہر ملک کا احترام کرتے ہیں۔ ہم خواہش رکھتے ہیں کہ ایران میں جو ہوا اسے پھیلائیں۔‘
ایران کا آئین بھی کہتا ہے کہ پاسداران انقلاب کا کام خدا کے قانون کو کرہ ارض پر پھیلانا ہے اور ایک متحد قومی معاشرہ قائم کرنا ہے جس کی بنیاد دنیا کے مظلوم لوگوں کو آزاد کرنا ہوگی۔
آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسی کا کام ’جائز جہاد‘ کی حمایت بھی ہے۔
ایران سے متاثر ہو کر 1979 میں فلسطین کی پہلی شدت پسند تنظیم شروع ہوئی تھی جس کا نام اسلامک جہاد موومنٹ تھا۔
ایران نے1980 کی دہائی میں لبنان میں حزب اللہ اور عراق میں حزب الدعوة الإسلامية کی بھی حمایت کی تھی۔  
ایران کے پاسداران انقلاب اور ملک میں میں موجود حزب اللہ کے ارکان نے 1990 کی دہائی میں القاعدہ کے ارکان کو تربیت دی تھی اور آج بھی عراق، افغانستان اور یمن میں ’جائز جہاد‘ کے شعلے بھڑکا رہے ہیں۔  
ایران کی اکسانے کی پالیسی کا لبنان کے مشہور دانشوروں کے قتل میں بھی حصہ ہے، جن میں حسین مورووا، مہدی عمل اور لقمان سلیم جیسے دانشور شامل ہیں۔
امریکہ کی وزارت خارجہ نے ایران کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والا اول ملک قرار دیا ہے، اور وہاں باغیوں کو دی جانے والی پھانسی اور ملک سے باہر مخالفین کو ہدف بنانے پر روشنی ڈالی ہے۔
آیت اللہ خمینی نے اسلامبولی جیسے نوجوانوں کی قربانیوں کو مثبت روشنی میں پیش کرتے ہوئے دوسروں کو ’جہاد‘ میں لڑنے اور مرنے کے لیے اور انقلاب کے اہداف حاصل کرنے کے لیے اکسایا تھا۔
ایک خطبے میں آیت اللہ خمینی نے کہا تھا کہ ’خدا میرا گواہ ہے، جب بھی میں ان نوجوانوں کو جوش اور جذبے سے لڑتے ہوئے دیکھتا ہوں، مجھے اپنے آپ سے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ کون ہیں؟ ہم کیا ہیں؟ ہم نے اس دنیا میں کچھ 80 سال گزارے ہیں، یہ میں اپنے لیے بول رہا ہوں اور ہم نے وہ حاصل نہیں کیا جو انہوں نے کچھ دنوں میں حاصل کر لیا ہے۔‘
اس خطاب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہم اپنے لیے نظم و ضبط قائم نہیں کر سکے۔ میرے لیے بھی اب بہت دیر ہو چکی ہے، لیکن آپ کو خود میں نظم و ضبط قائم کرنا ہے۔ ہم سب کو ایک دن ختم ہو جانا ہے، ہمیں خدا کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ وہ ہمارے لیے دوسری دنیا میں جگہ بنائے۔‘
آج تشدد کو بڑھانے اور ایرانی حکومت کے اپنے اہلکاروں کو متحرک کرنے کے زیادہ تر نظریات وہی ہیں جو آیت اللہ خمینی اور ان کے مشیروں نے وضح کیے تھے۔
عراق کے شہر نجف میں 1970 کو دیے گئے خطابات پر مشتمل کتاب ’اسلامی حکومت‘ میں خمینی نے ’ولایتِ فقہ‘ کے نظام کی وضاحت کی جو آج ایران میں رائج ہے۔
یہ کتاب اشتعال انگیز قوانین اور شدت پسند اسلامی اصولوں کا ملغوبہ ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ انقلاب ایران کے لیے جہاد کو فروغ دیا جائے اور غیر اسلامی حکومتوں کو کمزور کیا جائے۔

انور سادات کی ہلاکت کے منصوبے میں ایران کا براہ راست ہاتھ نہیں تھا لیکن آیت اللہ خمینی نے تشدد کے آغاز میں کردار ضرور ادا کیا تھا: فوٹو اے ایف پی

آیت اللہ خمینی نے کتاب میں لکھا کہ ’ایسی حکومتوں کے قیام کا مطلب ہے اسلام کے نظام اور قانون کو خراب کرنا۔ بہت سا ایسا مواد موجود ہے جس میں مشرک غیر اسلامی حکومتوں اور ان کے ظالم حکمرانوں کا ذکر ہے۔‘
’مسلمان معاشرے سے شرک کو جڑ سے اکھاڑنا اور اسے اپنی زندگیوں سے نکالنا ہمارا فرض ہے۔‘
مختصر یہ ہے کہ خمینی ایسے بے بنیاد دعوے کیے جن کے مطابق کہا گیا کہ یہودی سازش کر رہے ہیں اور خلیجی ممالک کے بادشاہ اسرائیل اور مغربی قوتوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اس دھوکے بازی کو بے نقاب کرنا چاہیے اور اس بات کا ببانگ دہل اعلان کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہودی اور ان کے غیر ملکی آقا اسلام کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور یہودیوں کی دنیا بھر میں حکومت کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔‘
آیت اللہ خمینی نے کتاب میں لکھا کہ ’تمام نوآبادیاتی طاقتوں نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، روحانیت کی سماجی معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور فقہاء کو قوم کی تقدیر لکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
’یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم میں کچھ اس طرح کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔‘
آیت اللہ خمینی کے نزدیک سیکولر اداروں میں اسلامی شدت پسندوں کی دراندازی ان کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک موثر ذریعہ ہے۔
حقیقت میں انہوں نے مصر کے صدر جمال عبدالناصر کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کے جرم میں 1966 میں پھانسی کی سزا پانے والے اخوان المسلمین کے سرکردہ رکن سید قطب کی بات کو آگے بڑھایا ہے۔
آیت اللہ خمینی نے لکھا کہ ’ہمیں ظالم کی حکومت کے خلاف لڑنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے اور اس نے ظالم کی اطاعت سے منع فرمایا ہے۔‘
کئی دہائیوں کے بعد انقلاب ایران کی 40 ویں سالگرہ کے موقع پر آیت اللہ خمینی کے ایک شاگرد نے ’فنڈامینٹل اسلامک ایرانین بلیو پرنٹ فار پروگریسو‘ کے نام سے ایک دستاویز جاری کی۔
سنہ 14 اکتوبر 2018 کو شائع ہونے والی 56 نکات پر مشتمل اس دستاویز میں سپریم لیڈر کے 50 سالہ مشن کو واضح کیا۔
اس میں ’اسلامی دنیا میں جذبہ جہاد کو ابھارنا، اسلامی تحریکوں کی حمایت کرنا اور فلسطینیوں کے حقوق کا مطالبہ کرنا شامل ہے۔‘
آیت اللہ خمینی کی نصف صدی قبل شائع ہونے والی کتاب ’اسلامی حکومت‘ کے بعد یہ بات واضح ہے کہ دخل اندازی اور بھڑکانے کے اصول موجودہ حکومت کے اگلے 50 برسوں کے نظریات کی عکاسی کرتے ہیں۔

شیئر: