جن کے د لو ں میں اللہ کا خوف ہو تا ہے وہ نیک کا مو ں میں خودکو مصر و ف رکھتے ہیں، زند گی کا کو ئی لمحہ ضا ئع ہو نے نہیں دیتے
مفتی تنظیم عالم قاسمی۔ حیدرآباددکن
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ وہ انہیں اگر شمار کرنا چاہے توشمارنہیں کرسکتالیکن بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان نعمتوں کو محسوس کریںاوران پر شکر بجا لائیں۔نعمت کا لفظ بولنے کے بعد عام طور پر مال و دولت اور روپئے پیسے کی طرف ہی ذہن جاتا ہے اور معاشرے میں جو لوگ مالدار اور اہل ثروت ہوتے ہیں ان کے بارے میں تصور ہوتا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے بے شمار احسان کیا ہے ۔
بلا شبہ مال و دولت بھی اللہ کی نعمت ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایسی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دے رکھی ہیں کہ کوئی شخص ان کی قیمت کا اندازہ بھی نہیں کر سکتاجیسے صحت وتندرستی بہت بڑی نعمت ہے،قدموں اور ہاتھوں میں قوت بڑی نعمت ہے ۔ہر سانس جس کے ذریعے ہم زندہ ہیںبڑی نعمت ہے،پانی کا ہر قطرہ اور غذا کا ہر دانہ جس کے ذریعے ہم اپنی بھوک اور پیاس کو بجھاتے ہیں یہ بڑی نعمت ہے اور نہ جانے اس طرح کتنی نعمتیں ہیں جن کو ہم شب و روز استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے بارے میں تصور نہیں ہوتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی قیمتی اورقابل قدر نعمتیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہم ان کی صحیح طرح قدر نہیں کرسکتے اور جب یہ نعمتیں ہاتھ سے چلی جاتی ہیں تب کہیں ان کا احساس ہوتا ہے لیکن نعمتوں کے کھو دینے کے بعد احساس سے کیا حاصل؟
ٹھیک اسی طرح وقت اللہ کی عظیم نعمت ہے جو ہر انسان کوحاصل ہے ۔مالدار ہو یا غریب،مرد ہو یا عورت،جوان ہو یا بوڑھا ہر ایک کے پاس یہ موجود ہے تاہم لوگوں کو اس نعمت کا احساس نہیں اس لئے بے دریغ اسے ضائع کیا جاتا ہے اور اس پر کوئی فکر بھی نہیں ہوتی حالانکہ وقت اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کی قدر سے انسان دنیا اور آخرت دونوں جگہ کا میاب ہوتا ہے ۔جتنے بھی تاریخ ساز افراد دنیا میں گزرے ہیں وقت کو انہوں نے قیمتی سمجھا اور ایک ایک پل کی قدر کی ،تب انہیں یہ مقام اور رتبہ ملا ۔
دنیوی زندگی میں بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ محنت سے کام کرتے ہیں اور وقت کو ضائع نہیں کرتے وہ ہمیشہ ترقی کے زینے طے کرتے ہیں، وہ معاشی اور اقتصادی اعتبار سے بھی خوشحال ہو تے ہیں ۔وقت کی قدر سے ایک انسان رفتہ رفتہ عروج اور بلندیوں کو چھو لیتا ہے ۔ آج جتنے بھی کسی بھی فن کے ماہرین ہیں اُنہوں نے شروع سے اپنے وقت کی حفاظت کی اور اسے قدر کی نظروں سے دیکھا،اس کی وجہ سے ہی انہوں نے یہ مقام حاصل کیا ۔ انہی قوموں نے ہمیشہ ترقی کی ہے جنہوں نے وقت کا صحیح استعمال کیا اور اس کو قیمتی جان کر کچھ کرنے پر جٹے رہے ایک وقت آیا کہ وہ ایسا کامیاب ہوے کہ ساری دنیا رشک کی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگی۔
وقت کی قدر کئے بغیر انسان جس طرح دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتا اسی طرح آخرت میں کامیابی نہیں مل سکتی ‘اس لئے وقت کا ضائع کرنے والا شریعت کی نظر میں بھی مجرم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم نے رات میں جلد سونے اور صبح جلد بیدار ہونے کی ہدایت دی اور ان لوگوں پرسخت ناراضگی کا اظہار فرمایا جو عشاء کی نماز کے بعد بلا وجہ گفتگو میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں ۔ایک مو قع پرآپ نے ار شا د فر ما یا
آد می کے اسلا م کی خو بی اور اس کے کمال میں یہ بھی دا خل ہے کہ و ہ فضو ل اور غیر مفید کا مو ں اور با تو ں کا چھو ڑنے والا ہو۔ (ترمذی)۔
یعنی ایسا انسان کبھی اسلام کی خوبی کو نہیں پا سکتا جو یونہی وقت گزارتا ہے اور اسے اس کی فکر نہیں ہوتی ۔ اس طرح کی ہدایات کے باوجود آج اگر جائزہ لیں توساری قوموں سے زیادہ مسلمان ہی وقت ضائع کرتے ہوے ملیں گے ۔
شادی بیاہ کے موقع پر آپ دیکھیں کہ وقت کی کتنی ناقدری کی جاتی ہے ۔شادی کارڈ میں نکاح یا طعام ولیمہ کا وقت بعد عشا ء ہوتا ہے جبکہ 11 بجے رات میںدولہا شادی خانہ میں داخل ہوتا ہے اور کبھی رات کے12 بج جاتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ انتظار کرتے کرتے واپس چلے جاتے ہیں ۔شادی والوں کو کیا معلوم کہ اس تاخیر سے کتنے لوگوں کا قیمتی وقت انہوں نے ضائع کیا ہے اور کتنے افراد کو انہوں نے اذیت پہنچائی ہے ۔اسی طرح کتنے ایسے نوجوان ہیں جو موبائل اور انٹرنیٹ پر گھنٹوں گزار دیتے ہیں اور انہیں اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ چوراہوں اور ہوٹلوں میں اپنے دوست و احباب کے ساتھ وقت ضائع کرتے ہوے کتنے لوگ آپ کو ملیں گے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اس عظیم نعمت کے ضیاع کی کوئی فکر نہیں۔
حالانکہ مسلما نو ں کے کند ھے پر آخر ت کی بڑ ی بھا ری ذمہ دا ری عا ئد ہو تی ہے ۔انہیں فر صت ہی کہا ں کہ لغو یا ت اور فضو ل و بے کا رکا مو ں میں اپنی صلا حیتوں کو صر ف کر یں ۔رضا ئے الہٰی اور فلا حِ آخر ت ان کا مشن ہو تا ہے ، وہ آخر ت کی طر ف تیز قد مو ں سے سفر کرتے ہیں ،اس لئے کہ نہیں معلو م زند گی کے کتنے لمحا ت با قی ہیں سفر بھی مکمل ہو سکے گا یا نہیں۔ جن کے د لو ں میں اللہ کا خوف ہو تا ہے وہ موت کو ہمیشہ یا د کر تے ہیں اور نیک کا مو ں میں اپنے آپ کو مصر و ف رکھتے ہیں۔ وہ زند گی کا کو ئی لمحہ ضا ئع ہو نے نہیں دیتے جیسے حا لت سفر میں کسی کے پا س اگر چند رو ٹیا ں ہو ں اور انہیں فا قہ کا اند یشہ ہو تو وہ ہر گز ان رو ٹیو ں کو کتو ں کے سا منے ڈا لنے کی غلطی نہیں کر سکتا یا چھاگل میں پا نی کم ہو اور سفر طو یل در پیش ہو تو تو پا نی زمین پر پھینکنے کی وہ کبھی حما قت نہیں کر سکتا۔
رسو ل اکر م نے ایک مر تبہ نصیحت کر تے ہو ے ار شا د فر ما یا :5چیزو ں کو 5 چیزو ں سے پہلے غنیمت سمجھو :جو انی بڑھا پے سے پہلے، صحت مر ض سے پہلے،دو لت عزت سے پہلے ،فر اغت مشغو لیت سے پہلے اور زند گی مو ت سے پہلے ۔‘‘(مشکٰوۃ )۔
جو ا نی ، زند گی، ما ل و دو لت ، صحت و تند ر ستی اور خا لی و قت یہ وہ چیز یں ہیں جن کی قد ر کی جا ئے اور صحیح را ستے پر انہیں خر چ کیا جا ئے تو بند ہ و لا یت کے مقا م کو بھی پہنچ سکتا ہے اور یہ نعمتیں کسی کو بھی ہمیشہ کے لئے نہیں دی جاتیں بلکہ دن ڈھلنے کی طر ح ہر ایک پر زوا ل طا ری ہو تا ہے ۔وقت یکسا ں نہیں ر ہتا ۔کبھی ما لد ار ی ہے تو کبھی غر بت ،کبھی جو انی ہے تو کبھی بڑھا پا، حا لا ت بد لتے رہتے ہیں۔ نہ جا نے یہ صحت اور خو شحا لی، یہ جو انی اور زند گی کے لمحا ت کب چھن جا ئیں ،اس لئے رحمت دو عا لم نے ان نعمتو ں کی قد ر کر نے کی ہد ایت فر ما ئی اور اگلے مو قع کا انتظا ر کئے بغیر ابھی ہی آخر ت کے لئے کچھ سر ما یہ جمع کر لینے کا مشو رہ دیا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ کا ر ِخیر اور فرا ئض کی ادا ئیگی کو اگلی ساعتو ں کے لئے ٹا لتے رہیں اور اچا نک قو ت عمل ہم سے ختم ہو جا ئے ، اس وقت چا ہنے کے با جو د بھی نیکی سے ہم محر و م رہیں گے اور آخرت و یر ان نظر آئے گی جہا ں آپ کے تعا و ن کے لئے کو ئی بھی تیا ر نہ ہو گا ۔
یہ امر و اقعہ ہے کہ انسا ن پید ا ہو نے کے سا تھ ہی قبر کی طر ف سفر شر و ع کر د یتا ہے ۔اگر اس کے مقد ر میں60 سا ل کی عمر تھی تو جیسے ہی ایک سا ل کا عر صہ گزر ا اس سے ایک سا ل کا وقت کم ہو گیا جیسے جیسے یہ و قت گر د ش کر تا ر ہتا ہے اورہفتو ں اور مہینو ں کی شکل میں لیل و نہا ر انگڑا ئیا ں لیتا ہے ، و یسے و یسے عمر متعین سے وقت کم ہو تار ہتا ہے ۔ گو یا ہر نئی صبح ایک را ت اور ہر نئی شا م ایک دن چھین لیتی ہے اور اس طر ح وہ قبر سے قر یب ہو تا جا تا ہے۔
ایک بچہ اگر شعو ر کے د ہلیز پر قد م ر کھتا ہے تو اس کے با پ کو فطر ی طو ر پر خو شی ہو تی ہے کہ اس کا نو رِ نظر اب شعو ر ی عمر کی طر ف منتقل ہو ر ہا ہے ، حا لا نکہ بچو ں کا با شعو ر اور جو ان ہو نا اور ان کی شا دی بیا ہ خو د با پ کے لئے مو ت کا پیغا م ہے کہ بیٹا اب جو ان ہو چکا اور اب با پ کی زند گی کے خا تمے کا وقت آچکا ہے۔ بچہ ہو شمند اور جو ان کیا ہو تا ہے وہ کشا ں کشا ں مو ت کی طر ف بڑھتا رہتا ہے جس کو نو جو انی ، جو انی اورکہو لت کی منزلو ں میں تقسیم کر لیا گیا ہے، اس لئے نئے سا ل کے مو قع پر جب پر انے کیلنڈر کی جگہ نیا کیلنڈر لگا نے کے لئے ہا تھ آگے بڑھتا ہے تو فو راًاُس وقت سو چنا چا ہئے کہ ہما ری عمر سے ایک سا ل کا عر صہ اور کم ہو گیا اور مزید قبر کی منز ل ہم سے قر یب ہو گئی ۔اس وقت آپ گزشتہ مکمل ایک سا ل کا محا سبہ کیجئے کہ کل قیا مت کے لئے کتنا ذخیر ہ آپ نے جمع کیا ، کتنا نیک عمل اور کتنا بر ے کامو ں میں وقت صر ف ہو ا ۔محا سبہ کے بعد نئے سا ل کے لئے ایک نیا نظا م عمل تیا ر کیجئے جس میں لغو یا ت اور بے مقصد با تو ں کو با لکل جگہ نہ دی گئی ہو ۔ عبادات، معا شی، معا شر تی اور سما جی خد ما ت پر مشتمل یہ نظا م زند گی ہو ، سنتو ں کے مطا بق اس کو ڈھا ل کر منظم اور پا ک و صا ف زند گی گزار نے کا عہد کیجئے ۔
یہ نہا یت قا بل افسو س ہے کہ جنو ر ی کی پہلی تا ر یخ کو نئے سا ل کا جب جشن منا یا جا تا ہے توغیر مسلو ں کے سا تھ مسلم نو جو ان بھی مستی اور ر قص و سر ور میں شر یک ر ہتے ہیں ۔ مسلما نو ں کے لئے سا ل کاآ غا ز تو محر م الحر ام سے شر و ع ہو تا ہے جس کی آمد پر ہما رے نو جو انو ں کو علم بھی نہیں ہو پا تا کہ وہ کب آیا اور کب گیا اور پھر کیانئے سا ل کی آمد جشن کا مو قع ہے ؟ نیا سال کیا آیا گو یا ایک سا ل و قت کا سر ما یہ لٹ گیا اور سر ما یہ لٹنے پر خو شی نہیں منا ئی جا تی بلکہ یہ اپنے نفس کا محا سبہ اور آخر ت کو سنو ار نے کے لئے منصو بہ بند ی کا مو قع ہے، اس سے د نیا میں عزت اور کا میا بی حا صل ہو گی اور آخر ت کی ابد ی را حتیں بھی ۔