Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستان کو برطانوی ریڈ لسٹ میں شامل کرنا سائنسی بنیاد پر یا خارجہ پالیسی؟‘

وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ ہر ملک کو اپنے شہریوں کی صحت کی حفاظت کے لیے فیصلے کا حق ہوتا ہے (فائل فوٹو)
پاکستان کے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے  برطانیہ کی جانب سے پاکستان سمیت چند ممالک کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے پر سوال اٹھایا ہے کہ آیا ان ممالک کا انتخاب سائنسی بنیادوں پر تھا یا خارجہ پالیسی کے تحت۔
سنیچر کی صبح اسد عمر نے ٹویٹ کیا کہ ’ہر ملک کو اپنے شہریوں کی صحت کی حفاظت کے لیے فیصلے کا حق ہوتا ہے تاہم اس فیصلے سے یہ جائز پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان ممالک کا انتخاب سائنسی کی بنیاد پر تھا یا خارجہ پالیسی کی بنیاد پر۔‘
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے پر کہا ہے کہ برطانوی حکومت کے اس فیصلے کا کسی سائنسی یا حقائق پر مبنی فیصلہ نہیں۔
’پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنا اور کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ممالک کو چھوڑنا واضح طور پر کسی سائنسی یا حقائق پر مبنی فیصلہ نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ خارجہ پالیسی کی مجبوریوں کو ظاہر کرتا ہے، اسی لیے خارجہ پالیسی میں برابری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر  اور شیریں مزاری نے اپنے ٹویٹ کے ساتھ  برطانوی رکن پالیمان ناز شاہ کے خط کو شامل کیا ہے جس میں انہوں نے ریڈ لسٹ پر سوالات اٹھائے تھے۔
 خیال رہے کہ جمعے کو برطانیہ نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر پاکستان کو بھی سفری پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشنر نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ برطانیہ کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی سرحدوں کے حوالے سے صورت حال کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتا رہا ہے اور پاکستان سے صرف ان افراد کو برطانیہ سفر کرنے کی اجازت ہوگی جو برطانوی یا آئرش شہری ہیں یا ان کے پاس برطانیہ میں رہائش کے حقوق ہیں۔
برطانوی رکن پالیمان ناز شاہ نے اس سلسلے میں برطانوی وزیرخارجہ کو خط لکھا  اور اس میں ریڈ لسٹ پر سوالات اٹھائے۔
انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان کو ریڈ لسٹ میں کس سائنٹیفک بنیاد پر شامل کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فرانس، جرمنی اور انڈیا کی نسبت پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد کم ہے۔
ناز شاہ نے اپنے خط میں مزید کہا کہ حکومت کے پاس ریڈ لسٹ سے متعلق کوئی جامع حکمت عملی نہیں اور وہ اپنے عوام کے تحفظ کی بجائے سیاسی فیصلے کر رہی ہے۔
ٹوئٹر پر وفاقی وزیر اسد عمر کے ٹیوٹ کے جواب میں نیوٹرل ایمپائر نامی صارف نے لکھا کہ ’اگر پاکستان کی حکومت بھی ایئرپورٹس پر سخت اقدامات کرتی اور قرنطینہ کو لازمی قرار دیا جاتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔‘

ایک اور صارف طلعت کاشف نے لکھا کہ ’یو کے نے اپنا وائرس پاکستان بھیج دیا اور اب پاکستان کے لیے دروازے بند کر دیے۔‘

خیال رہے کہ برطانیہ کی ریڈ لسٹ میں متحدہ عرب امارات، جنوبی افریقہ، قطر، برازیل سمیت 35 ممالک پہلے ہی شامل ہیں۔

شیئر: