Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسان کےلئے انسان کا رشتہ چاہئے ،پری کا نہیں

 
 بے جوڑ شادیوں کے باعث اکثر شوہر ، بیوی کو طلاق تھما دیتے ہیں
 
عنبرین فیض احمد۔ ریاض
 
آج کل اکثر گھروں میں یہی پریشانی دیکھنے کو ملتی ہے کہ لڑکیوں کی عمریں گزرتی جا رہی ہیں اور کوئی مناسب رشتہ نہیں مل پا رہا۔ والدین اپنی بچیوں کی عمریں ڈھلتے ہوئے دیکھ کر ذہنی کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان کی راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال کا ایک سبب ہمارا میڈیا بھی ہے جہاں گلیمر اور خوبصورتی اپنی انتہاﺅں کو چھونے لگی ہے ۔ اسے دیکھ کر ہر لڑکا یہی کہتا ہے کہ مجھے میڈیا پر دکھائی دینے والی پیکر جمال جیسی دلہن چاہئے ۔ گھر آباد کرنے کے خواہشمند دولہوں کا معیار اس قدر بلند ہو چکا ہے کہ وہ اچھی خاصی شکل و صورت اور مال و دولت والی لڑکیوں کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ایسے میں ذرا تصور کیجئے کہ معمولی صورت اور غریب لڑکیوں کا کیا حال ہوگا۔ انہیں کون بیاہ کر لے جائے گا۔
ہر ماں کو اپنا بیٹا چاند سا لگتا ہے ، خواہ وہ کیسا ہی کالا، پیلا، نیلا کیوں نہ ہو مگر ماں اپنے اس ”چاند“ کے لئے سرو قامت، دراز زلفیں، غزال آنکھیں، حَسین ناک نقش، گوری رنگت کی حامل دبلی، پتلی ، اسمارٹ اور پڑھی لکھی دوشیزہ بیاہ کر گھر لانا چاہتی ہیں۔ اکثر مائیں اور بہنیں تو حد کر دیتی ہیں۔ وہ کسی معروف ماڈل یا غیر ملکی ہیروئن کا نام بتا کرکہتی ہیں کہ ہمیں تو اس قسم کی لڑکی چاہئے ، سگھڑ بھی ہونی چاہئے۔ اگر لڑکی نوکری بھی کرتی ہو تو سونے پر سہاگہ۔اس قسم کی سوچ اور خود ساختہ معیارات نے رشتوں کے مسئلے کی سنگینی کو بڑھا دیا ہے ۔
ایک خاتون کو اپنے لڑکے کے لئے رشتے کی تلاش تھی۔ وہ شادی دفتر گئیں اور وہاں انہیں کچھ لڑکیوں کی تصاویر دکھائی گئیں۔ تلاش بسیار کے بعد انہیں ایک لڑکی پسند آگئی۔ اب دوسرا مرحلہ لڑکے کو دکھانا تھا چنانچہ انہوں نے لڑکی والوں کو گھر بلایا، وضع وضع کے پکوان تیار کئے۔اس دوران ایک خاتون نے کہا کہ آپ اپنے بیٹے کو تو بلائیں۔ یہ سن کر قریب ہی بیٹھے ایک گنجے میاں شرم سے پانی پانی ہوتے دیکھے گئے۔ ان کی یہ کیفیت دیکھی تو راز افشا ہوا کہ یہی ”بے بال“ ہستی چاند سی دلہن تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔اسے دیکھ کر لڑکی کی ماں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ سوچنے لگیں کہ میں اس شخص سے اپنی بیٹی کیوں بیاہ دوں؟ نجانے وہ کیسی ماں ہے جو اس گنجے کے لئے مثلِ حور بہو تلاش کرنے پر بضد ہے ؟بہر حا ل معلوم ہوا کہ وہ صاحب اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے، اسی لئے ان کی ماں ا ور بہنوں کو کوئی لڑکی پسند ہی نہیں آتی تھی۔ وہ ہر روز کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی لڑکی کو دیکھنے نکل کھڑی ہوتی تھیں اور بعدازاںوہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کی برائیاں کرتے لوٹتی تھیں۔ان کی اماں کو کسی کا رنگ سانولا دکھائی دیتا تو کسی کے بولنے کا انداز غیر معیاری محسوس ہوتا۔ اگر کہیں کچھ عیب دکھائی نہ دیتا تو لڑکی کی اماں میں ہی عیب نکال دیا جاتا ۔ کوئی لڑکی ذرا فربہ ہوتی تو بہن صاحبہ فرماتیں کہ یہ مٹلو تو میرے بھیا کے ساتھ بالکل ہی نہیں جچ سکتی، وہ تو پختہ عمر کی عورت دکھائی دے رہی تھی، کسی بھی زاویے سے لڑکی تو نہیں لگ رہی تھی۔وقت یونہی گزرتاگیا۔ ان اکلوتے صاحبزادے کے دوستوں کی شادیا ں ہوتی گئیں۔ وقت گزرتا رہا۔ ان کے دوستوں کے بچے میٹرک ، انٹر تک پہنچ گئے مگر موصوف کنوارے ہی رہے ۔ اب دیکھنے والے بھی ان پر ترس کھانے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے لئے انسان کا رشتہ ہی تلاش کرنا چاہئے کسی حور ، پری کا نہیں۔انسان کو اپنی خواہشات کا دائرہ اتنا وسیع کرنا چاہئے جس میں وہ اور اس کی خواہشات دونوں سما سکتی ہوں۔
آج کل شادی دفاتر کی آڑ میں بھی لوگوں کو اُلو بنایا جاتا ہے، ان سے بھاری بھرکم فیسیں وصول کی جاتی ہیں ۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شادی ہو جاتی ہے مگر وہ زیادہ دن نہیں چلتی۔ شوہر نامدار اپنی بیوی کو طلاق کا پروانہ تھما دیتے ہیں اور یوں کرہ ارض پر ایک مظلوم ہستی کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: