امریکہ سے اختلافات بہت کم، پندرہ فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس عارضی: سعودی ولی عہد کے انٹرویو کے اہم نکات
امریکہ سے اختلافات بہت کم، پندرہ فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس عارضی: سعودی ولی عہد کے انٹرویو کے اہم نکات
بدھ 28 اپریل 2021 17:20
سعودی ولی عہد، نائب وزیراعظم و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے معروف جرنلسٹ عبداللہ المدیفر کو انٹرویو میں مملکت کے وژن 2030 کو لانچ کیے جانے کے پانچ برس مکمل ہونے پر حاصل کیے جانے والے اہداف اور چیلنجز کے علاوہ خارجہ پالیسی، امریکہ سے تعلقات ،یمن کے بحران اور ایران کے حوالےسے گفتگو کی ہے۔
امریکہ سے اختلافات بہت کم، حوثیوں کے ساتھ امن اب بھی ممکن
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ’تیل نے سعودی عرب کو بے شک فائدہ پہنچایا تاہم سعودی عرب تیل کی دریافت سے پہلے سے موجود ہے۔ سعودی وژن 2030 زیادہ طاقتور معیشت اور سعودی عوام کو زیادہ بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے لایا گیا ہے، اہداف کے قریب ہیں‘۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ’تیل نے سعودی عرب کو بے شک فائدہ پہنچایا تاہم سعودی عرب تیل کی دریافت سے پہلے سے موجود ہے۔ سعودی وژن 2030 زیادہ طاقتور معیشت اور سعودی عوام کو زیادہ بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے لایا گیا ہے، اہداف کے قریب ہیں‘۔
’تیل کے ماسوا آمدنی 166 ارب ریال سے بڑھ کر 350 ارب ریال تک پہنچ گئی ہے‘۔
سعودی ٹی وی اورعرب ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے منگل 27 اپریل شب ولی عہد مملکت شہزادہ محمد بن سلمان کا خصوصی انٹرویو نشرکیا ہے۔
معروف جرنلسٹ عبداللہ المدیفر کو انٹرویو میں مملکت کے وژن 2030 کو لانچ کیے جانے کے پانچ برس مکمل ہونے پر انٹرویو میں سعودی ولی عہد، نائب وزیراعظم و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ’صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی ساتھ سعودی عرب کی ہم آہنگی نوے فیصد تک ہے‘۔
’امریکہ سعودی عرب کا سٹریٹجک شریک ہے۔ سعودی حکومت زیادہ مسائل پر امریکی صدر کی انتظامیہ کے ساتھ متفق ہے۔ اپنے اختلاف رائے کی مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کےلیے مل کر کام کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہر خاندان کی طرح اور بھائی بھی تمام ایشوز اور امور پر سو فیصد اتفاق نہیں کرتے۔ جب حکومتوں کی بات ہوتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کبھی اختلاف کا دائرہ بڑھ جاتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ’ سعودی عرب دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہوئے ہے۔ ہم خطے میں شرکا کے ساتھ سٹریٹجک شراکت برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ دیگر ملکوں کے ساتھ اتحاد مضبوط کر رہے ہیں اور نئے شریک بنا رہے ہیں‘۔
ولی عہد نے کہا کہ’ ہم کوئی بیرونی دباو قبول نہیں کرتے اور نہ کسی کو اپنے اندرونی امور میں مداخلت کی اجازت دیتے ہیں‘۔
’ہماری مشکل ایران کے منفی سرگرمیوں کی وجہ سے ہے ‘
یران سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا ’ایران پڑوسی ملک ہے۔ ہماری آرزو ہے کہ ایران کے ساتتھ سعودی عرب کے اچھے تعلقات ہوں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایرا ن مشکل میں پڑے۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ ایران ترقی کرے، خوشحال ہو، ایران کے ساتھ ہمارے مفادات پورے ہوں اور ایران کے مفادات سعودی عرب سے حاصل ہوں تاکہ خطہ اور دنیا بھر کے ممالک ترقی اور خوشحالی کی طرف پیش رفت کریں‘۔
ولی عہد نے کہا کہ ’ہماری مشکل ایران کے منفی سرگرمیوں کی وجہ سے ہے۔ ایران کا ایٹمی پرگرام یا خطے کے بعض ممالک میں قانون کی باغی ملیشیاوں کی سرپرستی یا ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام ہو اس سے ہمیں مشکل ہے‘۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ’ سعودی عرب خطے سمیت دنیا بھر میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ مسائل حل کرنے کےلیے کوشاں ہے‘۔
’حوثیوں کو جنگ بندی قبول کرکے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا‘
یمن کے بحران سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ایرانی نظام سے حوثیوں سے مضبوط تعلقعات ہیں۔ یمن کی آئینی حکومت کے خلاف حوثیوں کی بغاوت غیر قانونی ہے‘۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ’ حوثی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر یمن کے تمام عوام کے حقوق اور خطے کے ممالک کے مفادات کے ضامن حل تک رسائی حاصل کریں گے‘۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ’ سعودی عرب اپنی سرحدوں پر قانون کی باغی مسلح تنظیم کا وجود برداشت نہیں کرے گا۔ حوثیوں کو جنگ بندی قبول کرکے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ’ سعودی عرب کی پیش کش یہ ہے کہ حوثی جنگ بندی قبول کرکے مذاکرات کی میز پر آئیں۔ سعودی عرب اقتصادی مدد بھی کرے گا اور وہ جو چاہیں گے اسے پورا کیا جائے گا‘۔
’اس میں کوئی شک نہیں کہ حوثیوں کے ایرانی نظام سے پرانے تعلقات ہیں لیکن حوثی عرب اور یمنی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ حوثی یمن میں بہتر طریقے سے رہیں۔ اپنے اور ملک کے مفادات کو سب سے اوپر رکھیں‘۔
سعودی وژن 2030
ولی عہد نے ٹی وی انٹرویو میں سعودی وژن 2030 کی تفصیلات بھی بیان کیں اور کہا کہ’آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہوگا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سعودی وژن کے ذریعے ایسے مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے گا جن سے ابھی تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا‘۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ’ 2015 کا سال 80 فیصد نااہل وزرا کی وجہ سے مشکل تھا۔ یہ ایسے لوگ تھے جنہیں معمولی ترین کمپنی کا سربراہ بھی تعینات نہیں کیا جاسکتا‘۔
انہو ں نے کہا کہ’ تیل کے ماسوا شعبے میں مختلف مواقع مہیا ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھایا جانا ضروری ہے۔ ہم ایسے مواقع سے استفادہ کریں گے جن سے اب تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور یہ کام وژن 2030 کے ذریعے کیا جائے گا‘۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ ’کورونا وبا سے قبل بے روزگاری کی شرح کے حوالے سے ہم دنیا کے بہتر ممالک میں سے تھے۔ وبا کے باوجود تمام شعبوں میں کامیابی کے اعدادوشمار بہترین ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کی استعداد کے لحاظ سے پالیسیاں اور حکمت عملیاں تیار کی گئی ہیں۔ 2025 سے قبل سعودی وژن کے اہداف کا ریکارڈ توڑ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی عہدیدار سے میری دلچسپی یہ ہے کہ اسے اپنی ڈیوٹی سے پیار ہو۔
محمد بن سلمان کا کہنا تھا’ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ نے 2020 کے دوران نوے ارب ریال خرچ کیے۔ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ نے سال رواں کے دوران 160 ارب ریال خرچ کیے۔ ہمارا ہدف ہے کہ پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے اثاثے 10 ٹریلین ریال تک پہنچ جائیں۔ سعودی آرامکو کے کچھ شیئرز پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے حوالے ہوں گے‘۔
انویسٹمنٹ فنڈ کی جانب سے ’روشن کمپنی‘ کے قیام کا مقصد سعودی عرب میں دس لاکھ مکانات کی فراہمی ہے۔ اصل ٹارگٹ 40 لاکھ مکانات کی فراہمی کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’معاون صنعتی سرمایہ کاری کے بڑے موا قع فراہم کررہی ہیں۔ آرامکو سے ہماری امید یہ ہے کہ وہ تین ملین بیرل تیل 2030 میں امدادی صنعتوں کے حوالے کردے‘۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ’وژن 2030 سے قبل بے روزگاری کی شرح 14 فیصد تھی جو سال رواں کے دوران گیارہ فیصد تک کم ہوجائے گی۔ 2030 تک بے روزگاری سات فیصد تک کم کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیے ہوئے ہیں‘۔
ولی عہد کے مطابق تیل کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی ملکی آمدن 166 ارب ریال سے بڑھ کر 350 ارب ریال تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 15 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس عارضی ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس اس بات کی علامت ہے کہ سرکاری سبسڈی ایسے افراد کی جیبوں میں نہ جائے جو اس کے مستحق نہیں۔
انٹرویو کے دوران سعودی ولی عہد نے آباد کاری کی پالیسیوں، قانون سازیوں اور ملکی معیشت میں نجی شعبے کی شراکت کے اعدادوشمار کا ذکر بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ’سعودی وژن 2030 کی بدولت سعودی شیئرز مارکیٹ کا گراف بلند ہوا، جس کے بعد بازار حصص سات ہزار کے پوائنٹس سے اٹھ کر دس ہزار پوائنٹس سے زیادہ اوپر چلا گیا ہے۔ 60 فیصد سعودی شہری مکانات کے مالک بن چکے ہیں جبکہ وژن 2030 متعارف کرائے جانے سے قبل ان کا تناسب 47 فیصد تک تھا‘۔
ولی عہد نے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پیش آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے پر تمام سرکاری اداروں کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ’ ریاض کی آبادی کی شرح نمو زیادہ سرمایہ کاری چاہتی ہے۔ یہاں 60 لاکھ اسامیاں فراہم کریں گے‘۔
ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’تعلیم کا معیار خراب نہیں ہے تاہم اسے زیادہ بہتر بنانے کے خواہشمند ہیں۔ تعلیم میں معلومات کا حجم کم کرکے ریسرچ پر زور دیا جائے گا‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’سیاحت کا شعبہ 2030 میں 20 لاکھ اسامیاں فراہم کرے گا۔ مملکت میں 50 فیصد ملازمتیں بچت میں مددگار نہیں ہیں۔ بے روزگاری میں کمی کے بعد ہمارا اگلا ہدف سعودی شہریوں کو بچت کے قابل بنانا ہوگا‘۔
انہو ں نے اطمینان دلایا کہ سعودی عرب میں انکم ٹیکس لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
ولی عہد کا کہنا تھا کہ 2020 کے دوران ہم نے بہت سارے ریکارڈ توڑے اور اب ہم زیادہ بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرامکو کے ایک فیصد شیئرز 2021 یا آئندہ دو برسوں کے دوران غیرملکی سرمایہ کاروں کو فروخت کیے جائیں گے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ کورونا وبا سے قبل بے روزگاری کی کم شرح کے حوالے سے ہم دنیا کے بہتر ممالک میں سے تھے۔ وبا کے باوجود تمام شعبوں میں کامیابی کے اعدادوشمار بہترین ہیں۔